انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن جولائی میں سی اے اے کا سیفٹی آڈٹ کرے گی

اپ ڈیٹ 24 فروری 2021
ٹیم 5 جولائی پاکستان پہنچے گی اور 15 جولائی تک اپنا سیفٹی آڈٹ کرے گی — فائل فوٹو: اے ایف پی
ٹیم 5 جولائی پاکستان پہنچے گی اور 15 جولائی تک اپنا سیفٹی آڈٹ کرے گی — فائل فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی: انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کی ایک ٹیم سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کا یونیورسل سیفٹی اوور سائٹ آڈٹ کرنے کے لیے جولائی میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹیم 5 جولائی کو پاکستان پہنچے گی اور 15 جولائی تک اپنا سیفٹی آڈٹ کرے گی۔

آئی سی اے او اقوامِ متحدہ کا ایک خصوصی ادارہ ہے جو بین الاقوامی فضائی ٹرانسپورٹ کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کام کرتا ہے، ایوی ایشن ریگولیٹر کی پروازوں کے معیار کا جائزہ لیتا اور سیفٹی آڈٹ کے تناظر میں دیگر اقدامات اٹھاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی تحفظات دور کرنے کیلئے پائلٹ لائسنس امتحانات آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ

اس سے قبل آئی سی اے او نے گزشتہ برس ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور سی اے اے کو نئے لائسنس جاری کرنے سے قبل فوری طور پر لائسنسنگ سسٹم کو نئے سرے سے تیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس وقت پاکستانی حکام کی جانب سے 262 پائلٹس کے مشکوک لائنسز کی تحقیقات شروع کی گئیں اس کے بعد سے آئی سی اے او کی جانب سے متعدد آبزرویشنز آچکی ہیں۔

ابتدائی تحقیقات کے بعد سی سی اے کے 5 عہدیداروں کو معطل کردیا گیا تھا اور ان کے کیسز مجرمانہ تفتیش کے لیے وفاقی تحقیقاتی اداراے (ایف آئی اے) کو ارسال کردیے تھے۔

ابتدا میں آئی سی اے اوز کی آڈٹ ٹیم نے سیفٹی سے متعلق 36 ہدایات کی تھیں جس میں پاکستان کے ہوابازی حکام نے 26 کلیئر کردیں۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کو مطلوب پائلٹ اسلام آباد ایئرپورٹ سے گرفتار

بعدازاں آئی سی اے او نے بقیہ 10 خدشات کو بھی دور کرنے کا کہا تھا جو نوعیت کے اعتبار تکنیکی تھیں۔

ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ آئی سے اے او نے غلطیوں سے پاک لائسنسنگ نظام کے اٹھائے گئے اقدامات، امتحانی سیلیبس میں اُمیدواروں کے لیے رکھے گئے سوالات اور سوالنامہ کس طرح تیار کیا جاتا ہے، کے بارے میں پوچھا تھا۔

پاکستانی حکام لائسنسنگ سسٹم کو از سر نو ترتیب دے دیا ہے اور شفافیت یقینی بنانے کے لیے ایک علیحدہ ڈائریکٹوریٹ بھی قائم کیا ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ سی اے اے کو نئے لائسنس جاری کرنے سے قبل لائسنسنگ کے نظام کو از سر نو تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی تھی اور اس سسٹم کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔

جعلی پائلٹس کا معاملہ

خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:’جانچ پڑتال کے بعد 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیے گئے‘

چنانچہ یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔

اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔

بعدازاں دسمبر میں ایک کیس کے سلسلے میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ضروریات پر پورا اترنے کے لیے حکام نے تمام 860 کمرشل پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا اور جانچ پڑتال کے بعد ان میں سے صرف 50 کو منسوخ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں