سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو وکلا کے چیمبرز گرانے سے روک دیا

27 فروری 2021
عدالت عظمیٰ نے وکلا کو چیمبرز گرانے سے روک دیا—فائل فوٹو: محمد عاصم/ وائٹ اسٹار
عدالت عظمیٰ نے وکلا کو چیمبرز گرانے سے روک دیا—فائل فوٹو: محمد عاصم/ وائٹ اسٹار

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو فٹ بال گراؤنڈ، گرین بیلٹس اور فٹ پاتھوں پر بنے وکلا کے غیر قانونی چیمبرز کو گرانے سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وکلا نے اپنے کمپلیکس کی تعمیر مکمل ہونے پر زمین کو خالی کرنے سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے وکلا کے چیمبرز غیرقانونی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد بار ایسوسی ایشن (آئی بی اے) کی درخواست پر 2 مارچ تک حکم امتناع جاری کیا۔

عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل کو کہا گیا کہ وہ مذکوہ تاریخ پر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا کے خلاف مقدمہ درج

علاوہ ازیں پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے)، پنجاب بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل، اسلام آؓاد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ اس معاملے میں بغیر کسی دباؤ یا حمایت کے سماعت کی جائے گی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے فٹ بال گراؤنڈ تجاوزات کیس کو نمٹاتے ہوئے وکلا کو کہا تھا کہ وہ 28 فروری تک رضاکارانہ طور پر زمین خالی کردیں، ساتھ ہی سی ڈی اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ کھیل کے میدان کی زمین واپس لے اور 23 مارچ کو وہاں انٹر کالجز فٹ بال میچز منعقد کرائے۔

تاہم پی بی سی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

جب عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے اپیل پر سماعت کی تو درجنوں وکلا روسٹرم پر جمع ہوگئے، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے انہیں روسٹرم چھوڑنے کا کہا اور صرف ان لوگوں کو اجازت دی جنہیں دلائل دینے تھے۔

بعد ازاں ایس سی بی اے کے صدر لطیف آفریدی اور سینئر ایڈووکیٹ حامد خان نے شہناز بٹ کیس میں دیے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر بحث کی جس پر عدالت عالیہ کے چار رکنی بینچ نے سی ڈی اے کو غیر قانونی چیمبرز کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں حامد خان اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے عدالتی معاون تھے اور انہوں نے سرکاری اراضی پر تجاوزات کی مخالفت کی تھی، مزید یہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں حامد خان کو عدالت کی مدد کرنے پر سراہا تھا۔

ادھر چیف جسٹس گلزار احمد نے اپیل پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ چونکہ ماضی میں وہ ایک پیشہ ور وکیل رہ چکے ہیں اس لیے وہ بار کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں معلوم ہے کہ وکلا ججز کے بارے میں کیا باتیں کرتے ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہی ادارے کے بارے میں محتاط رہیں گے'۔

دریں اثنا اسلام آباد بار کونسل اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) نے وکلا کے غیر قانونی چیمبرز کو مسمار کرنے کے خلاف عدالت عظمیٰ کے حکم امتناع کا خیرمقدم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بار سیاست‘ میں وکلا کی فائرنگ کی خطرناک روایت، مقدمات درج

آئی بی اے کے وائس چیئرمین ذوالفقار علی عباسی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کمپلیکس کے قیام تک وکلا کو اپنے چیمبر برقرار رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وکلا کمپلیکس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد وکلا اپنے چیمبرز کو چھوڑنے کا وعدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے 8 فروری کو وکلا کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی جانب سے ان کو لکھے گئے خط کے جواب میں انہوں نے پہلے ہی چیف جسٹس بلاک پر حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔

ذوالفقار علی عباسی نے دعوٰی کیا کہ سی ڈی اے نے چیمبرز کے خلاف مہم کے آغاز سے قبل قانون کی پاسداری نہیں کی، مزید یہ کہ انہوں نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر کے اندراج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں