سینیٹ انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے، سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2021
عدالت نے 25 فروری کو رائے محفوظ کی تھی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت نے 25 فروری کو رائے محفوظ کی تھی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے مطابق خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدارتی ریفرنس کے ذریعے مانگی گئی رائے پر اپنی رائے دی۔

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 4 ایک کی اکثریت سے رائے دی اور چیف جسٹس نے رائے پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رائے سے اختلاف کیا۔

عدالت عظمیٰ نے اپنی 8 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری رائے میں لکھا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں، عدالت

رائے میں لکھا گیا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ دیانتداری، منصفانہ اور شفاف انتخاب یقینی بنائے اور قانون کے مطابق کرپٹ پریکٹسز سے اس کا تحفظ کرے۔

عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن نے رائے دی کہ شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتا ہے ساتھ ہی کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئینی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سمیت تمام دستیاب اقدامات اٹھائے تاکہ’دیانتداری، منصفانہ، شفاف طریقے سے انتخابات یقینی بنایا جائے اور کرپٹ پریکٹسز سے اس کا تحفظ کرے‘۔

عدالتی رائے میں کہا گیا کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔

چیف جسٹس کی تحریر کردہ رائے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جبکہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ 1967 میں نیاز احمد کیس میں فیصلہ دے چکی ہے۔

اکثریتی رائے میں عدالت نے کہا کہ جہاں تک بیلٹ کی رازداری کا معاملہ ہے عدالت کے 5 رکنی بینچ نے نیاز احمد، عزیز الدین اور دیگر کے 1967 کے کیس میں پہلے ہی فیصلہ دیا ہوا ہے جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ رازداری مطلق نہیں ہے اور اس لیے بیلٹ کی رازداری مثالی یا حتمی معنوں میں لاگو نہیں کی جائے بلکہ انتخابی عمل کی ضرورت کے مطابق عملی غور و فکر سے اس میں دخل دیا جائے۔

مزید برآں جسٹس یحییٰ آفریدی نے مختصر اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مذکورہ ریفرنس میں صدر پاکستان کی جانب سے مانگی گئی رائے آئین کے آرٹیکل 186 پر غور کرنے پر قانونی سوال نہیں بنتا اور اسی لیے اسے بغیر جواب کے واپس کردیا ہے۔

واضح رہے کہ 25 فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کرلی

یہاں یہ واضح رہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں اور ان انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے آج رائے سنائے جانے کے موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹسز جاری کیے تھے، مزید یہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اراکین الیکشن کمیشن اور دیگر کو بھی نوٹس جاری ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد فروری سے اس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئی تھیں۔

آرٹیکل 226 کیا کہتا ہے؟

دستور پاکستان کا آرٹیکل 226 کہتا ہے کہ ’دستور کے تابع تمام انتخابات ما سوائے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے‘۔

اسی معاملے پر صدر مملکت عارف علوی نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے اس سوال کا جواب چاہا تھا کہ آیا آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ رائے دہی کی شرط سینیٹ انتخابات پر لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔

معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی رائے مانگی تھی۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: خفیہ بیلٹ سے متعلق معاملات پارلیمنٹ طے کرے گی، چیف جسٹس

صدر مملکت نے 6 فروری 2021 کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور اسے جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا تھا اور اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا تھا۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، مزید یہ کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں مذکورہ آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں