صدارتی ریفرنس: کسی جماعت کو اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 19 فروری 2021
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے — فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے — فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا اور اگر کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: صدارتی ریفرنس: الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ جمع کرایا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ووٹرز کے لیے ضابطہ اخلاق جمع کروا چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ذاتی حیثیت میں بھی پیش ہورہا ہوں، کوشش کروں گا اپنے دلائل مختصر رکھوں۔

رضا ربانی نے کہا کہ میں 10 نکات پر اپنے دلائل دوں گا، میرے دلائل کا آغاز جسٹس اعجاز الاحسن کے نظام رک جانے والے ریمارکس سے ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: ’الیکشن کمیشن نے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔

رضا ربانی نے کہا کہ عام تاثر ہے رکن پارلیمنٹ اچھا وکیل نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے رضا ربانی کو مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ایسی بات نہیں ہے، آپ اچھے وکیل ہیں، آپ تو 1994 سے سینٹ کے ممبر ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ دلائل کا آغاز سینیٹ کو تخلیق کرنے کا مقصد کیا ہے اس سے کروں گا، سینیٹ کو تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد فیڈرل ازم ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات میں سے 14واں نکتہ فیڈرل ازم کا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ کو قائم کرنے کا مقصد گھٹن کے ماحول کو ختم کر کے متناسب نمائندگی دینا ہے، ایسی چھوٹی سیاسی جماعتیں جن کی چار صوبائی نشستیں ہوتی ہیں انہیں بھی سینیٹ میں نمائندگی ملتی ہے، چھوٹی سیاسی جماعتوں کو وفاق میں اپنی بات کرنے کا موقع دینے کے لیے سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کا تصور دیا گیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: اسپیکر قومی اسمبلی کی اوپن بیلٹ کی حمایت

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں تین یا چار اراکین کے باوجود دو سینیٹرز موجود ہیں، آپ سینیٹ کی تشکیل اور مقصدیت کو سامنے رکھیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت قومی اسمبلی میں ہوتی ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ میں وفاق، پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے، ہاؤس آف لارڈ اور ہاؤس آف کامن میں بھی تنازع دیکھا جا سکتا ہے، ہاؤس آف کامن کے پاس عوامی نمائندگی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسئلے کا حل آئین میں دیکھنا چاہیے، قومی اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد بھی سینیٹ اسے مسترد کر سکتا ہے، سینیٹ کو بل پر 90 دنوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں نمائندگی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے تناسب سے ہوتی ہے، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کی صوبے میں بھی حکومت ہو، وفاق میں کسی اپوزیشن جماعت کی صوبے میں حکومت ہو سکتی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے سوال پوچھا ہے کہ خفیہ ووٹنگ کا اطلاق سینٹ پر ہوتا ہے یا نہیں، حکومت نے ایسا تاثر دیا ہے کہ جیسے مقدمہ 184/3 کے دائرہ اختیار کا ہے، میں جسٹس اعجاز الحسن کے سوالات کے جواب دوں گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: 'جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا'

اس پر رضا ربانی کو ٹوکتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میرا نام اعجاز الحسن نہیں، اعجاز الاحسن ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ کے قیام کا مقصد تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے، جو خود کو الگ سمجھتے تھے انہیں نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ قائم ہوئی، پارلیمانی نظام میں دونوں ایوان کبھی اتفاق رائے سے نہیں چلتے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی عوام اور سینیٹ وفاقی اکائیوں کی نمائندہ ہے، دونوں ایوانوں میں اختلاف رائے نہ ہونا غیر فطری ہو گا، لازمی نہیں کہ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت کی صوبے میں بھی اکثریت ہو۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینیٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے، متناسب نمائندگی کے نقطے پر تفصیلی مؤقف دوں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا ذکر آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 59 دونوں میں ہے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: افسوس پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ہی معاہدے سے پھر گئیں، چیف جسٹس

رضا ربانی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 51 کے تحت متناسب نمائندگی مخصوص نشستوں پر پارٹی لسٹ کے مطابق ہوتی ہے، آرٹیکل 59 میں متناسب نمائندگی سینیٹ میں ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ متناسب نمائندگی کی عدالت جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل حالات والی ہے، سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کئی بار سیاسی جماعتیں دوسرے صوبے کی جماعتوں سے بھی ایڈجسمنٹ کرتی ہیں لیکن اگر بین الصوبائی اتحاد بھی ہو تو ووٹ خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے؟

رضا ربانی نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے، سیاسی اتحاد عام طور پر خفیہ ہی ہوتا ہے البتہ اگر کوئی انفرادی شخص سینیٹ ممبر بننا چاہے تو ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کی عددی تعداد کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے، ووٹ سیکرٹ رکھنے کے پیچھے کیا منطق تھی؟

رضا ربانی نے کہا کہ شاید ووٹ سیکرٹ اس وجہ سے رکھا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کا صحیح تناسب نہ آ سکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی جماعت کے صوبائی اسمبلی میں دو اراکین ہوں تو وہ حلیف جماعتوں سے اتحاد قائم کر سکتی ہے، آپ ہمیں متناسب نمائندگی سے متعلق بتا دیں، آپ انفرادی حیثیت میں لارجر بینچ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ ہمیں آئین سازوں کے دماغ کو سمجھنا ہو گا، سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی قانون سازوں کے ذہن میں تھی، متناسب نمائندگی کے نظام کے نیچے بھی تین مختلف نظام موجود ہیں، ہر آرٹیکل میں الگ نظام سے متعلق بتایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں پارٹی نمائندگی کا کہا گیا ہے وہیں سنگل قابلِ انتقال ووٹ کا بھی کہا گیا ہے، سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کو بھی مین اسٹریم نمائندگی کا حق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کے خلاف جائے، اتحادی جماعتوں کی اپنی طاقت ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ نظام جو بھی اپنایا جائے سینیٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے، 1973 کا آئینِ پاکستان بنتے وقت وزیر قانون نے کہا تھا کہ صوبائی نشستوں کی سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔

رضا ربانی اس پر کہا کہ اگر اس اصول پر سختی سے عمل کرنا ہے تو پھر پارٹی لسٹ ہونی چاہیے تھی، پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) اتحادی ہیں، تحریک انصاف چار یا پانچ سینیٹر میں سے ایک سینیٹر مسلم لگی (ق) کو دے رہی ہے، کیا تحریک انصاف کے ایک سینیٹر کم ہونے سے متناسب نمائندگی کی عکاسی ہو گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس دلیل کو دوسرے انداز سے بھی بیان کر سکتے ہیں، اکثریتی جماعت دوسری اتحادی جماعت سے صوبے میں سیٹ کا تبادلہ کر سکتی ہے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا پنجاب میں ابھرتا ہوا اتحاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اس پر مزید بات نہیں کرسکتا، سوال یہ ہے کہ پھر اتحاد کی صورت میں سینیٹ کا ووٹ کیوں خفیہ ہوتا ہے۔

رضا ربانی نے جواب دیا کہ سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہوتا لیکن اگر انفرادی ووٹر چاہے تو اپنا ووٹ خفیہ رکھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ پیر کو خفیہ رائے شماری پر دلائل دوں گا، آرٹیکل 226 کے سینیٹ انتخابات پر اطلاق پر بھی دلائل دوں گا۔

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر صدارتی ریفرنس: 'ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے'

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں