نئے کورونا وائرس کی وبا کو 15 ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر اب بھی اس کے بارے میں نت نئی معلومات سامنے آرہی ہیں جن میں سے اکثر کی طبی ماہرین نے توقع بھی نہیں کی تھی۔

وبا کے آغاز سے ہی یہ بات سامنے آئی ہے کہ کووڈ 19 دل کے مسائل جیسے خون کے پمپ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔

مگر یہ سوال سامنے آیا تھا کہ یہ مسائل براہ راست وائرس کے دل کو متاثر کرنے سے ہوتے ہیں یا وائرل انفیکشن کے خلاف جسم کے مدافعتی ردعمل کا نتیجہ۔

اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو یہ نقصان براہ راست وائرس کے دل پر حملہ کرنے کے نتیجے میں ہوتا ہے جو دل کے پٹھوں کے خلیات میں اپنی نقول بنانے لگتا ہے، جس سے خلیات مرنے لگتے ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں ماہرین نے اسٹیم سیلز کو استعمال کرکے دل کے خلیات کو تیار کیا جس پر وائرس کے تجربات کیے گئے۔

اس تحقیق کے نتاج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں شائع ہوئے۔

محققین نے بتایا کہ وبا کے آغاز میں ہمارے پاس شواہد موجود تھے کہ کورونا وائرس صحت مندد افراد میں ہارٹ فیلیئر یا دل کی انجری کا باعث بن سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ کالج ایتھلیٹس کووڈ 19 کو شکست دیکر مقابلوں میں واپس آئے تو ان کے دل پر خراشوں کو دیکھا گیا، مگر اس حوالے سے یہ بحث کی جارہی تھی کہ یہ براہ راست دل پر وائرس کے حملے کا نتیجہ ہے یا مدافعتی ردعمل کا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری تحقیق کچھ مختلف ہے کیونکہ اس میں ثابت کیا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں یہ وائرس دل بالخصوص اس کے پٹھوں کو ہدف بناکر ہارٹ فیلیئر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

تحقیق میں ہارٹ ٹشوز ماڈلز پر تجربات کے دوران دیکھا گیا کہ یہ بیماری نہ صرف دل کے پٹھوں کے خلیات کو مارتی ہے بلکہ مسلز کے فائبر یونٹس کو بھی تباہ کرتی ہے۔

نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلیات کے مرنے اور دل کے مسلز کے فائبر میں کمی کا مسئلہ جسمانی ورم کے بغیر بھی ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ورم اس نقصان کو مزید بڑھا دیتا ہے مگر صرف ورم ہی دل کی انجری کی ابتدائی وجہ نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دیگر وائرل انفیکشنز کی بھی دل کو نقصان پہنچانے کی تاریخ ہے مگر کورونا وائرس اس حوالے سے منفرد ہے، بالخصوص بیماری کے خلاف مدافعتی خلیات کے ردعمل کی وجہ سے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف مدافعتی خلیات ردعمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر کووڈ پر دل پر ہونے والے مدافعتی ردعمل دیگر وائرسز کے مقابلے مین مختلف ہوتا ہے، اور ہم اب تک جان نہیں سکے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر دیگر وائرسز کے خلاف دافعتی ردعمل کے اثرات مختصر بیماری کے بعد دور ہوجاتے ہیں ، مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں یہ اثرات طویل المعیاد نتائج کا باعث بنتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

محققین نے کہا کہ دل کو نققصان کیوں پہنچتا ہے، اس کا جواب ابھی دینا مشکل ہے کیونکہ کووڈ 19 کے حقیقی مریضوں کے دل کے پٹھوں پر تحقیق نہیں ہورہی، ان پر تحقیقی کام سے جوابات مل سکیں گے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ کووڈ 19 کی معمولی شدت سے متاثر نوجوان افراد کو بھی بعد میں امراض قلب کا سامنا ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہیں جسمانی سرگرمیوں کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

ان کے بقول ہم اس کو سمجھنے کے لیے کام کررہے ہیں تاکہ اس کی روک تھام یا علاج کرسکیں، اس وقت ہر ایک کو وائرس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں