مذہبی رہنما کا قاتلانہ حملے کے بعد سیکیورٹی نہ ملنے پر اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 17 مارچ 2021
اتوار کے روز انجینیئر مرزا کو ان کی اکیڈمی میں ہفتہ وار لیکچر دینے کے بعد قاتلانہ حملے کا سامنا رہا تھا، رپورٹ - فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
اتوار کے روز انجینیئر مرزا کو ان کی اکیڈمی میں ہفتہ وار لیکچر دینے کے بعد قاتلانہ حملے کا سامنا رہا تھا، رپورٹ - فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

گجرات: حال ہی میں قاتلانہ حملے میں محفوظ رہنے والے مذہبی اسکالر انجینیئر محمد علی مرزا کا کہنا ہے کہ جہلم پولیس نے انہیں متعدد درخواستوں کے باوجود سیکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے انجینیئر مرزا نے ڈان کو بتایا کہ وہ اتوار کے روز اپنی اکیڈمی میں ظہر کی نماز کے بعد ہفتہ وار لیکچر دیتے تھے جہاں شرکا کو سیکیورٹی چیک سے گزر کر آنا ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حملہ آور صبح 8 بجے کے قریب اکیڈمی کا دروازہ کھلنے کے بعد داخل ہوا اور اس نے تیز دھار ہتھیار اپنے پاس چھپالیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور نے دن ساڑھے تین بجے لیکچر ختم ہونے تک ان کا انتظار کیا جس وقت شرکا عام طور پر اسکالر کے ساتھ فوٹو سیشن کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: مشہور عالم دین انجینئر محمد علی مرزا قاتلانہ حملے میں محفوظ

انجینیئر مرزا کا کہنا تھا کہ 'تاہم سیالکوٹ سے آنے والے ایک شخص نے تصویر کھنچوانے کے لیے قطار کی خلاف ورزی کی اور اسی دوران اس کا ہاتھ مشتبہ شخص کے تیز دھاری آلے سے لگا جس پر اس نے سب کو خبردار کیا اور اس پر مشتبہ شخص مجھے مارنے کے لیے میری طرف بڑھا لیکن سیکیورٹی اہلکاروں نے مجھے بچالیا، حملہ آور دوبارہ میری طرف بڑھا اور اس کا ہتھیار میرے کندھے پر لگا'۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں طبی امداد دینے کے بعد اسی روز مقامی ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ 2017 میں بھی اقدام قتل سے بچ چکے ہیں اور جس میں ان کے جسم پر متعدد زخم آئے تھے۔

اس واقعے میں حملہ آور بھی لاہور کا ایک باشندہ تھا تاہم انجینیئر مرزا نے انہیں معاف کردیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں چند مذہبی رہنماؤں نے گمراہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2017 میں حملے کے بعد پولیس نے ان کی سیکیورٹی کے لیے دو پولیس اہلکار تعینات کیے تھے جنہیں بعد میں واپس لے لیا گیا، اس کے بعد انہوں نے اپنی نجی سیکیورٹی کا انتظام کیا تھا۔

پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ ایک ’مفتی‘ نے ملزم کو انجینیئر مرزا پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ، 2محافظ جاں بحق

جہلم کے ڈی پی او شاکر حسین داوڑ کا کہنا تھا کہ انجینیئر مرزا کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی کیونکہ ضلعی انٹلیجنس کمیٹی نے ان کے 'متنازع' بیانات کی وجہ سے انہیں فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے متعلقہ حکام کو انجینیئر مرزا کی اکیڈمی کو بند کرنے کا کہا تھا۔

فورتھ شیڈول دہشت گردی یا فرقہ واریت کے شبہ پر پابندی کا سامنا کرنے والے افراد کی فہرست ہے جن کو نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔

جہلم پولیس نے مئی 2020 میں انجینیئر مرزا کو گرفتار کرکے ان کے خلاف چند مذہبی اسکالروں کے خلاف بیانات دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا تھا اور گرفتاری کے ایک روز بعد ہی انہیں عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں