ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2021
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایک ہفتے میں احمد عمر کو منتقل کر دیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایک ہفتے میں احمد عمر کو منتقل کر دیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل سے متعلق کیس میں ملزم احمد عمر شیخ کو پنجاب میں کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈینئیل پرل کیس میں ملزم کی رہائی سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: سیکیورٹی خدشات پر مرکزی ملزم عمر شیخ لاہور منتقل

حکومت سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں احمد عمر شیخ کو پنجاب کے حوالے سے کرنے سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے کہا کہ احمد عمر شیخ کی جانب سے اہل خانہ کی صوبہ پنجاب میں موجودگی کی وجہ سے انہیں یہاں منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جی او آر بھی ہائی سیکیورٹی علاقہ ہے اس لیے پنجاب حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے افراد کو سہولیات فراہم کرے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ان افراد کی رہائی کے بعد لگاتار حراست پر عدالت مطمئن نہیں ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ احمد عمر شیخ کو جیل ملازمین کی کالونی میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس کے ملزمان کو ریسٹ ہاؤس منتقل کردیا گیا

انہوں نے کہا کہ باہر رکھنے پر رینجرز اور پولیس کے انتظامات کرنے پڑیں گے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر احمد عمر شیخ کو جیل کی حدود میں ہی رکھنا ہے تو پھر مہلت کیوں مانگ رہے ہیں؟ اور بتائیں احمد عمر کو کب پنجاب میں منتقل کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایک ہفتے میں احمد عمر شیخ کو منتقل کر دیں گے۔

احمد عمر شیخ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جیل کی حدود تو جیل ہوتی ہے آنا جانا مشکل ہوگا جبکہ عادل شیخ بیمار ہے اس کو علاج کی ضرورت ہے۔

عدالت نے عادل شیخ کو علاج کے لیے تمام سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے عدالتی احکامات پر عملدرآمد رپوٹس چیمبرز میں طلب کرلی۔

بعدازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر چیف سیکریٹری پنجاب کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ 22 مارچ کو امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں مبینہ ملزم احمد عمر شیخ کو لاہور منتقل کر دیا گیا تھا۔

عمر شیخ کو سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر سندھ پولیس نے محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب کے حوالے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ کا مرکزی ملزم عمر شیخ کی رہائی کا حکم

عمر شیخ کو چوہنگ سی ٹی ڈی کے سیل میں منتقل کیا گیا تھا۔

6 فروری کو حکومت سندھ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ اور ان کے 4 معاونین کو جیل سے نکال کر اسی کے احاطے میں ایک نو تعمیر شدہ سہولت گاہ میں منتقل کردیا تھا۔

قبل ازیں 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کو بری اور رہا کرنے کے حکم کے خلاف دائر درخواستوں پر عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم حکومت سندھ کی جانب سے اگلے ہی روز اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل بھی دائر کردی گئی تھی۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ کا مرکزی ملزم عمر شیخ کی رہائی کا حکم

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔

تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ نے ملزمان کی بریت کے خلاف نظرِثانی اپیل دائر کردی

تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ 'پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز' کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

جن پر 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایک کے مقابلے 2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں