جانی خیل مظاہرین کا نوجوانوں کی لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2021
مظاہرین نے لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا—فوٹو: سراج الدین
مظاہرین نے لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا—فوٹو: سراج الدین

خیبرپختونخوا (کے پی) کے ضلع بنوں میں گزشتہ ہفتے 4 جوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنے کے بعد جانی خیل تھانے کے باہر جاری دھرنے میں شامل مقامی قبائلی افراد اور لواحقین نے لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا۔

قبائلی افراد اور قتل ہونے والے 4 نوجوانوں کے رشتہ دار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں جن کی عمریں 13 سال سے 17 سال کے درمیان تھی اور وہ تین ہفتے قبل لاپتا ہوگئے تھے جبکہ گزشتہ اتوار کو ایک کھیت میں ان کی لاشیں ملی تھیں جس کے بعد گزشتہ 6 روز سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: بنوں: نو عمر لڑکوں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر تیسرے روز بھی احتجاج

نوجوانوں کی شناخت احمداللہ، محمد رحیم، رضام اللہ اور عاطف اللہ کےنام سے ہوئی تھی۔

مظاہرین نے لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا—فوٹو: سراج الدین
مظاہرین نے لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا—فوٹو: سراج الدین

جنوبی وزیرستان کے قریبی ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل سے تقریباً 10 ہزار افراد نے اتوار کی صبح چاروں نوجوانوں کی لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا، جن کا مطالبہ ہے کہ ریاست دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پولیس نے بنوں کی مرکزی شاہراہ کو بلاک کرکے مظاہرین کو کئی گھنٹوں تک مارچ کرنے سے روکے رکھا تاہم بعد میں انہیں اپنے راستے پر جانے کی اجازت دی گئی۔

ایک ویڈیو میں مظاہرین کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس میں وہ 'ہم کیا چاہتے، امن، ہم انصاف مانگتے ہیں اور غافل ریاست' کے نعرے لگا رہے ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے جانی خیل کے رہائشی اور مارچ میں شامل لطیف وزیر نے بتایا کہ 'مارچ شروع میں پرامن اور آرام سے جاری تھا' لیکن جب ٹوچی پل کے پاس پہنچے تو انہیں رکاؤٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے روکا گیا۔

انہوں نے پولیس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کو زبردستی روکا گیا اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کیا گیا، مارچ کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

لطیف وزیر نے بتایا کہ وہ پرامن احتجاج اور حکومت سے چار لڑکوں کے قتل کے ذمہ دار عناصر کو سامنے لانے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'صوبائی حکومت سے مایوس جانی خیل قبیلے کے بڑوں نے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین نہ کرنے کا فیصلہ کیا'۔

یہ بھی پڑھیں: چار لڑکوں کے قتل کا معاملہ، جانی خیل قبیلے کا احتجاج ختم کرنے سے انکار

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے کئی گھنٹوں تک روڈ بلاک رکھنے کے بعد انہیں مارچ جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

دوسری جانب ضلع کرک میں پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما قبائلی ضلعے سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو حراست میں لے کر بنوں جا کر احتجاج میں شامل ہونے اور مارچ کی سربراہی کرنے سے روک لیا۔

پی ٹی ایم ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو بھی کوہاٹ میں حراست میں لیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کے وزیر سماجی بہبود ہشام انعام اللہ خان مروت قبیلے کے مشیران کے ہمراہ جرگے کے لیے بنوں پہنچ گئے۔

انہوں نے مظاہرین کے قائدین کو بتایا کہ پوری قوم متاثرین کے غم میں برابر کی شریک ہے، مسئلے کے حل کے لیے جرگے کی صورت میں آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مروت اور بنوں کے قبیلے ایک دوسرے کے بھائی اور پڑوسی ہیں اور اس غم میں برابر کے شریک ہے، آپ کے جو جائز مطالبات ہیں، ان کو وزیر اعلیٰ محمود خان اور وزیراعظم عمران خان تک پہنچاؤں گا۔

ہشام انعام اللہ خان نے کہا کہ شہیدوں کی تدفین کی استدعا کرتا ہوں، صوبائی حکومت کے تمام وزرا کو آپ کے ساتھ جرگے میں بٹھاؤں گا۔

صوبائی وزیر مذاکرات کے لیے بنوں پہنچ گئے—فوٹو: سراج الدین
صوبائی وزیر مذاکرات کے لیے بنوں پہنچ گئے—فوٹو: سراج الدین

صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ خان نے جرگے کی مقامی روایت ننواتے کے تحت تین دنبے بھی ذبح کیے، جس کو دھرنا منتظمین نے قبول کیا۔

مذاکرات کے حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تاہم مارچ کے قائدین نے جانی خیل قبیلے سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا۔

وزیراعلیٰ کے پی محمود خان بھی بنوں پہنچ گئے ہیں اور تنازع کا حل نکالنے کے لیے جانی خیل قبیلے سے ملاقات کا امکان ہے۔

قبل ازیں مظاہرین نے چاروں لاشوں کو مقامی تھانے کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا تھا اور متاثرہ خاندانوں کو شہدا پیکیج دینے، ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، خطے میں امن اوراستحکام بحال کرنے کے لیے اقدامات کے مطالبات کیے۔

ڈان کو قتل ہونے والے ایک نوجوان کے رشتہ دار نے بتایا کہ مقتول کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: بیوروکریسی فاٹا انضمام کے منصوبے پر عمل درآمد میں رکاوٹ قرار

سیاسی اور سماجی کارکنوں، کاروباری برادری کے نمائندوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے متاثرہ خاندانوں سے اظہار یک جہتی کے لیے احتجاج میں حصہ لیا۔

صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمدخان اور مقامی انتظامیہ کے عہدیدار دھرنا ختم کرنے کے لیے مظاہرین کو منانے میں ناکام رہے۔

قبل ازیں علمائےکرام کا ایک وفد بھی مظاہرین سے مذاکرات کے لیے جانی خیل پہنچ گیا تھا اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں لاشوں کی فوری تدفین کو اجاگر کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں