'ٹیکس چور محصولات کی ہموار وصولی میں سب سے بڑی رکاوٹ'

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2021
ایف بی آر نے یہ مؤقف حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں اپنایا - فائل فوٹو:اے پی پی
ایف بی آر نے یہ مؤقف حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں اپنایا - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹیکس چور محصولات کی وصولی کو ہموار کرنے کی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور قانونی چارہ جوئی کا جاری سلسلہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (ٹی ٹی ایس) کے نفاذ میں تاخیر کا باعث ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے یہ مؤقف حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر اپنے جواب میں اپنایا جہاں ادارہ ٹی ٹی ایس عمل درآمد کے لیے نجی کمپنی کو لائسنس دینے کے چیلنج کا دفاع کررہا تھا۔

احمد جعفر اینڈ کمپنی (پرائیوٹ) لمیٹڈ (اے جے سی ایل) کنسورشیم کے ساتھ معاہدہ ایف بی آر نے 5 مارچ 2021 کو کیا تھا وہیں اس معاہدے کو ایک اور ادارے ریلائنس آئی ٹی سلوشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مارچ میں ایف بی آر ٹیکس وصولی ہدف سے تجاوز کرگئی

عدالت عالیہ نے دسمبر 2020 میں ایف بی آر کے چیئرمین کو طلب کرنے اور عدالتی ہدایت کے باوجود ٹی ٹی ایس کے لیے مناسب اداروں کی خدمات حاصل کرنے کے عمل کو شروع نہ کرنے پر وضاحت طلب کرنے کے بعد دسمبر 2020 میں نیشنل ریڈیو اور ٹیلی کمیونکیشن کمپنی (این آر ٹی سی) کے ساتھ اسی طرح کا معاہدہ ختم کردیا تھا۔

اس کے بعد مارچ 2021 میں نجی کمپنی کو ٹی ٹی ایس لائسنس دیا گیا۔

ٹی ٹی ایس لائسنس دیے جانے کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے ایف بی آر نے کہا کہ 'ریونیو لیکیج کو روکنے کے لیے تمباکو، سیمنٹ، کھاد اور چینی کی مصنوعات کی پیداوار و فروخت کی انڈر رپورٹنگ کو روکنے اور مخصوص مصنوعات کی تیاری اور فروخت پر سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مناسب ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ایف بی آر کو ٹی ٹی ایس کے نفاذ کے لیے لائسنس جاری کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر بوگس ٹیکس ریفنڈ کیس میں رقوم کی وصولی کرے، صدر مملکت

ایف بی آر نے بتایا کہ لائسنسنگ کمیٹی نے پی پی آر اے قواعد 2004 کے ضابطہ 2 (ایچ)، 36 اور 38 کے مطابق اے جے سی ایل کنسورشیم کی بولی کو سب سے زیادہ فائدہ مند بولی قرار دیا تھا۔

ایف بی آر نے اپنے وکیل سید اشفاق نقوی کے ذریعے دائر کیے گئے جواب میں کہا کہ 'ٹیکس چوری ایک خطرہ ہے جس کو صرف پیداواری کاروبار میں کمپیوٹرائزیشن کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے، پاکستان میں اصل پیداوار کا سراغ لگانے کا یہ غیر دخل اندازی، انسانی مداخلت سے پاک عمل ٹیکس چوروں کے لیے مناسب نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ 14 سالوں میں اس سے فائدہ اٹھانے والوں نے قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اس میں روکاوٹ ڈالیں جس سے ٹیکس چوری کی راہ ہموار ہوتی ہے، آج کل پیداواری حجم انسانی گنتی کی حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور کمپیوٹرائزڈ مانیٹرنگ کی حوصلہ شکنی سے ٹیکس چوروں کو بغیر ٹیکس سامان فروخت کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے قومی خزانے کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں