درہ آدم خیل میں اجتماعی قبر سے 16 کان کنوں کی لاشوں کی باقیات برآمد

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2021
درہ آدم خیل میں اغوا کر کے قتل کیے گئے کان کنوں کی باقیات کے تابوت کے پاس اہلخانہ اور مقامی سیاسی رہنما موجود ہیں— فوٹو: عمر باچا
درہ آدم خیل میں اغوا کر کے قتل کیے گئے کان کنوں کی باقیات کے تابوت کے پاس اہلخانہ اور مقامی سیاسی رہنما موجود ہیں— فوٹو: عمر باچا

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل میں نامعلوم شرپسندوں کی جانب سے 2011 میں اغوا کیے گئے 16 کان کنوں کی لاشوں کی باقیات ایک اجتماعی قبر سے برآمد کی گئی ہیں۔

شانگلہ کول مائنر ورکرز ایوسی ایشن کے عہدیداران کے مطابق یہ اجتماعی قبر خیبر ایجنسی کے علاقے طور سپاور پستاوانہ میں دریافت ہوئی جس کے بعد تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: سری لنکا:اجتماعی قبر سے 278 انسانی ڈھانچے برآمد

شانگلہ کول مائنر ورکرز ایسوسی ایشن کے ترجمان سرفراز خان نے کہا کہ اجتماعی قبر میں کان کنوں کی لاشوں کی باقیات کی اطلاع ملنے کے بعد وہ مقامی سیاسی رہنماؤں کے ہمراہ جائے وقوع پر پہنچے اور ریسکیو ورکرز کو اجتماعی قبر کی کھدائی کی ہدایت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ریسکیو ورکرز کو جائے وقوع سے 6 لاشوں کی باقیات ملیں تاہم بعدازاں مزید کھدائی کے بعد مجموعی طور پراس قبر سے 16 لاشوں کی باقیات برآمد کر لی گئیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 32 کان کنوں کو نامعلوم شرپسندوں نے 2011 میں درہ آدم خیل کی ایک کان سے اغوا کر لیا تھا۔

ان 32 میں سے 16 کان کن کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ بقیہ کو یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا جن کی لاشوں کی باقیات جمعرات کو برآمد ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: شام کے شہر رقہ میں اجتماعی قبر سے 5 سو سے زائد لاشیں برآمد

سرفراز خان نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان افراد کو اغوا کرنے کے فوری بعد ہی قتل کردیا گیا تھا اور ان میں سے کچھ کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہوئی۔

اجتماعی قبر سے برآمد ان باقیات کے ڈی این اے محفوظ کرنے کے بعد بعد ان کی تدفین کردی جائے گی۔

واضح رہے کہ ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں کان کنی کے کاموں کے لیے جاتی ہے۔

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس واقعے میں کون شرپسند عناصر ملوث ہیں کیونکہ 2011 میں یہ علاقہ مختلف دہشت گرد گروپوں کا گڑھ تھا۔

مزید پڑھیں: خضدار: اجتماعی قبروں پرعدالتی کمیشن کی رپورٹ جمع

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں اجتماعی قبر سے اس طرح بڑی تعداد میں لاشیں برآمد ہوئی ہوں بلکہ 2014 میں بھی ایک قبر سے 16 لاشیں برآمد ہوئی تھیں جس میں سے اکثر ناقابل شناخت تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں