خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد خطرناک حد تک بلند

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2021
اگر لاک ڈاؤن کی موجودہ پالیسی کو مکمل لاک ڈاؤن سے تبدیل نہ کیا گیا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے—فائل فوٹو: اے پی
اگر لاک ڈاؤن کی موجودہ پالیسی کو مکمل لاک ڈاؤن سے تبدیل نہ کیا گیا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے—فائل فوٹو: اے پی

پشاور: صوبائی حکومت کی جانب سے ہفتے میں 2 دن لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے اثرات اب تک سامنے نہیں آسکے اور سینئر ڈاکٹر سمیت مزید 33 افراد دم توڑ گئے جبکہ ایک ہزار 294 نئے کیسز سامنے آئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے احتیاطی اقدامات کے نفاذ کے باوجود کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح بھی وائرس کی تیسری لہر کے دوران بڑھ گئی ہے۔

صوبائی حکومت نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی سفارش پر 20 مارچ کو 5 اضلاع میں لاک ڈاؤن لگایا تھا جسے ایک ہفتے کے لیے 11 اضلاع تک توسیع دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس سے مسلسل چوتھے روز 5 ہزار سے زائد افراد متاثر، 114 انتقال کر گئے

صحت حکام کے مطابق تاہم انفیکشن، اموات اور کیسز کے مثبت آنے کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ 'ہمیں مکمل لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے جیسا گزشتہ برس جون اور جولائی میں لگایا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں کیسز اور اموات میں کمی آئی تھی، ہفتے میں صرف 2 دن مارکیٹوں کی بندش کا کوئی نتیجہ نہیں ہے جبکہ بقیہ 5 روز تمام سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہوں'۔

ان کے مطابق محکمہ صحت صوبائی حکومت کے ذریعے این سی او سی سے مکمل لاک ڈاؤن کی سفارش کرنے پر غور کررہا ہے تا کہ انفیکشن کی لہر کو روکا جاسکے۔

محکمہ صحت کے مرتب کردہ کووِڈ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 21 مارچ کو کیسز مثبت آنے کی شرح 9.7 فیصد رپورٹ ہوئی تھی جس کے بعد یہ 11 اپریل تک 10 فیصد سے زائد رہی۔

مزید پڑھیں: 'عالمی وبا نے انتہا پسندی کو بڑھایا، غربت کے خاتمے کی جنگ کو متاثر کیا'

اس عرصے کے دوران کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا اور 21 مارچ کو 7 افراد کا انتقال ہوا جبکہ یکم اپریل تک یومیہ 15 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں اور 2 اپریل سے یومیہ اموات کی اوسط تعداد 30 تک جا پہنچی۔

حکام کا کہنا تھا کہ متعدد تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لاک ڈاؤن انفیکشن کا پھیلاؤ روک سکتا ہے لیکن ہفتے میں 2 روز بندش کے موجودہ اقدام کا کوئی فائدہ نہں کیوں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کیسز اور اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔

صوبے میں 21 مارچ کو 792 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور اب یومیہ کیسز کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے جو شدید تشویش کی بات ہے کیوں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے میں اضافہ ہورہا ہے۔

اگر لاک ڈاؤن کی موجودہ پالیسی کو مکمل لاک ڈاؤن سے تبدیل نہ کیا گیا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: بھارت سے ارجنٹائن تک کروڑوں لوگوں کو لاک ڈاؤن، کرفیو کا سامنا

ضلعی انتظامیہ مارکیٹس اور ٹرانسپورٹ کی نگرانی کررہی ہیں تا کہ لوگوں کے ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے اور وائرس کی ترسیل کو روکا جاسکے تاہم اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا کیوں کہ انفیکشن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ سیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز صوبے میں کورونا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں محکمہ صحت سے رابطے میں ہیں اور شعبہ داخلہ اور قبائلی امور کو روزانہ کی بنیاد پر سخت ہدایات جاری کرتے ہیں تا کہ عوام میں ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔

تاہم جس تیزی سے کیسز اور اموات میں اضافہ ہورہا ہے صورتحال بے قابو ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب صوبائی ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن نے بتایا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں شعبہ میڈیسن کے سابق سربراہ کورونا وائرس سے انتقال کر گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں