فرانس میں ایک ایسے تجربے کو مکمل کرلیا گیا ہے جس میں ایک غار میں 15 افراد کو زیرزمین 40 دن تک رکھ کر یہ دیکھا گیا کہ گھڑیوں، دن کی روشنی اور باہری تعلق کے بغیر انسانوں کا وقت کا فہم کس حد تک متاثر ہوتا ہے۔

لومبرائیوز نامی غار میں 40 دن رہنے کے بعد جب 15 افراد باہر نکلے تو ان کے زرد چہروں پر مسکراہٹ تھی جبکہ خصوصی چشمے پہن رکھے تھے تاکہ زیادہ وقت تک تاریکی میں رہنے کے بعد سورج کی روشنی سے آنکھوں کو نقصان نہ پہنچے۔

اس تجربے میں شامل 7 خواتین میں سے ایک مرینہ لنکن نے بتایا کہ انہیں باہر آکر کسی کام کی جلدی نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ مزید چند دن غار میں رہ سکتیں، تاہم باہر آکر ہوا کو محسوس کرنا اور پرندوں کی چہچہاہٹ کو سننا اچھا لگا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ مزید چند دن اپنے اسمارٹ فونز سے دور رہنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

اس پراجیکٹ کا نام ڈیپ ٹائم ہے اور اس گروپ نے غار میں قیام اور کھوج قدرتی روشنی کے بغیر کی۔

اس غار میں درجہ حرارت 10 سینٹی گریڈ تھا جبکہ نمی 100 فیصد تھی، رضاکاروں کا باہری دنیا سے ککوئی رابطہ نہیں تھا، وبا کی کوئی اپ ڈیٹ نہیں ملی اور نہ ہی اپنے گھروالوں سے رابطہ کرسکتے تھے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

ہیومین اڈاپشن انسٹیٹوٹ کے سائنسدان اس پراجیکٹ کی قیادت کررہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ تجربے سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی کہ رہائش کے حالات اور ماحول میں ڈرامائی تبدیلی میں انسان کس حد تک مطابقت پیدا ہرسکتے ہیں۔

توقع کے مطابق غار میں رہنے والے افراد میں وقت کا فہم ختم ہوگیا تھا۔

راجیکٹ ڈائریکٹر کرسٹین کلوٹ نے بتایا 'ہم یہاں سے 40 دن بعد نکلے مگر ہمارے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ ہمیں لگا کہ ہمیں غار میں 30 دن ہی ہوئے ہیں'۔

ایک رضاکار کا تو خیال تھا کہ اسے غار کے اندر 23 دن ہی ہوئے ہیں۔

فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے سائنسدانوں کے اس مشترکہ پراجیکٹ میں شامل 15 افراد کے نیند کی عادات، سماجی رابطوں اور رویوں کی مانیٹرنگ سنسرز کے ذریعے کی گئی۔

ایک سنسر ایک کیپسول کے ذریعے لوگوں کو کھلایا گیا، جس کا مقصد جسمانی درجہ حرارت کی جانچ پڑتال اور ڈیٹا کو کمپیوٹر تک منتقل کرنا تھا۔

تحقیقی ٹیم نے ان افراد کی حیاتیاتی گھڑی کی مانیٹرنگ بھی کی تاکہ جان سکیں کہ وہ کب بیدار ہوتے ہیں، کب سونے جاتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے دنوں کا تعین گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ سونے کے سائیکل سے کیا۔

محققین نے بتایا کہ دوتہائی رضاکاروں نے مزید کچھ وقت زیرزمین رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سیارے میں بطور انسان ہمارے ارتقا کا عمل جاری ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کس طرح ہمارے دماغ نئے حل کو تلاش کرنے کے قابل ہیں، چاہے صورتحال جو بھی ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں