انسانی تاریخ کا وہ پراسرار ترین واقعہ جس کو اب 113 سال ہوگئے ہیں مگر اب بھی سائنسدانوں کو معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر وہ ہوا کیسے۔

یہ 30 جون 1908 کی بات ہے جب سائبریا کے علاقے ایونکی کے رہائشیوں نے آسمان پر نیلے رنگ کی روشنی کی حرکت کو رپورٹ کیا تھا جو ان کے بقول سورج جتنی تیز تھی۔

مزید پڑھیں : قریب المرگ افراد کو کن احساسات کا تجربہ ہوتا ہے؟

روشنی کی رپورٹ کے 10 منٹ بعد ایسی گرج دار آواز سنائی دی جیسے بھاری توپخانے سے گولہ باری کی جارہی ہو۔

یہ آواز مشرق سے شمال کی جانب سفر کررہی تھی جبکہ اس کے بعد ایک شاک ویو نے قصبے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔

اس جگہ کی 1926 سے 1930 کے دوران لی گئی تصویر — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
اس جگہ کی 1926 سے 1930 کے دوران لی گئی تصویر — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

دھماکے کی آواز جس کی لہریں یور ایشیا بلکہ برطانیہ تک زلزلہ پیما مراکز نے ریکارڈ کیے، مگر ایونکی اور ارگرد کے قصبوں کے رہائشیوں نے درحقیقت کسی قسم کے حقیقی دھماکے کو نہیں دیکھا۔

یہ بھی پڑھیں : جیل توڑ کر فرار ہونے والے قیدیوں کا وہ واقعہ جو اب بھی ذہن گھما دیتا ہے

اس دھماکے کے بعد کئی دن تک ایشیا اور یورپ کے اوپر آسمان میں جگمگاہٹ کو دیکھا گیا جو برفانی ذرات بلندی پر بننے کانتیجہ تھا جبکہ مختلف ممالک میں ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

اگرچہ دھماکا تو کسی نے دیکھا نہیں مگر اس کے مقام کو ضرور دریافت کرلیا گیا جو مشرقی سائبریا میں واقع تھا۔

یہ بھی جانیں : 6 دہائیوں پرانا 'آسیب زدہ' معمہ حل کرلیا گیا

وہاں موجود 800 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا جنگل یا 8 کروڑ درخت مکمل طور پر غائب ہوگئے اور اس کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آسکی۔

سائنسدانوں کا ابتدا میں ماننا تھا کہ وہ دھماکے کے اثر کا نتیجہ ہے مگر اس مقام پر کبھی کوئی گڑھا دریافت نہیں ہوسکا۔

رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانی : اپنا ہاتھ کاٹ کر خود کو بچانے والے شخص کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان

مگر جنگل کا جتنا بڑا مکمل طور پر سپاٹ ہوگیا، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا کہ دھماکے کی طاقت 10 سے 15 ٹن تھی۔

سائنسدانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر یہ دھماکا ہوا کیوں کیونکہ اتنی طاقت کا دھماکے سے ایک بڑے شہر تباہ ہوسکتا ہے۔

ایک اور دلچسپ داستان پڑھیں : 8 چہروں والا وہ شخص جس نے لاکھوں ذہن گھما کر رکھ دیئے

مگر اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا اور جب سے ہی سائنسدان کے ذہن چکرا رہے ہیں کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور وجہ کیا تھی۔

خوش قسمتی سے وہ علاقہ آباد نہیں تھا ورنہ بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضایع ہوتا مگر دھماکے کی حرارت کو دور دراز کے قصبوں کے رہائشیوں نے محسوس کیا تھا۔

واقعے کے 20 سال بعد کی تصویر میں بھی درخت گرے ہوئے ہیں — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
واقعے کے 20 سال بعد کی تصویر میں بھی درخت گرے ہوئے ہیں — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

ایک عینی شاہد نے اس موقع پر بتایا 'آسمان 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور جنگل کے اوپر آسمان کا شمالی حصہ آگ سے بھرا ہوا لگتا تھا'۔

مزید پڑھیں : وہ خاتون جو ہر 24 گھنٹے بعد 26 سال پہلے کے 'عہد' میں پہنچ جاتی ہے

اس کا کہنا تھا 'اس وقت ایک آسمان میں ایک دھماکا ہوا اور بہت بڑا کریش ہوا، ایسا کریش جس کو سن کر لگتا تھا کہ آسمان سے پتھر برس رہے ہوں یا گنوں کی فائرنگ ہورہی ہو'۔

اسے ٹونگوسکا ایونٹ کا نام دیا گیا جو انسانی تاریخ کا اب تک سب سے طاقتور ریکارڈڈ دھماکا بھی ہے جس سے خارج ہونے والی ہیروشیما میں گرائے جانے والے ایٹم بم سے 185 گنا زیادہ تھی۔

یہ دلچسپ داستان بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے

مگر ایک صدی سے بھی زائد عرصے بعد محققین کے ذہنوں میں مختلف سوالات موجود ہیں کہ آخر اس جگہ ہوا کیا تھا۔

کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایک سیارچہ اس دھماکے کی وجہ تھی مگر اتنے بڑے خلائی جسم کے شواہد اب تک دریافت نہیں ہوسکے۔

یہ اسرار بھی پڑھیں : وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا

کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آتش فشاں پھٹنے یا کان کنی کا کوئی حادثہ تھا مگر اس کے بھی شواہد نہیں مل سکے۔

درحقیقت سربیا کے اس خطے کا موسم ڈرامائی قسم کا ہے، جہاں موسم سرما کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے جبکہ گرمی کا موسم بہت مختصر، جس کے باعث سطح میں ایسی تبدیلیاں آئی جن نے اس جگہ کو ناقابل رہائش بنادیا، بلکہ وہاں پہنچنا ہی بہت مشکل ہے۔

یہ بھی جانیں : اس 'آسیب زدہ' ٹرین کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے؟

جب دھماکا ہوا تو کسی کو بھی تحقیقات کے لیے وہاں جانے نہیں دیا گیا کیونکہ روسی حکام کو مختلف خدشات تھے۔

1927 یں روس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے آخرکار اس جگہ کا دورہ کیا اور دریافت کیا کہ دھماکے کے لگ بھگ 20 سال بعد بھی وہاں ہونے والا نقصان ویسے کا ویسا ہی تھا۔

اس ٹیم نے خیال ظاہر کیا کہ ایک خلائی جسم فضا میں پھٹا جس سے یہ نقصان ہوا مگر کوئی بھی گڑھا یا خلائی ذرات دریافت نہیں ہوسکے۔

تو ٹیم نے یہ وضاحت کی کہ وہاں کا دلدلی خطہ اتنا زیادہ نرم تھا کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر ملبہ اس کے اندر دفن ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر

مگر دلدلی حصے کی گہرائی میں کچھ بھی دریافت نہیں ہوسکا اور کچھ دہائیوں بعد روسی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کوئی شہاب ثاقب نہیں بلکہ دم دار ستارہ تھا، جن کا زیادہ تر حصہ چٹانی نہیں بلکہ برف پر مبنی ہوتا ہے۔

زمین کے ماحول پر ہونے والی تباہی کے بعد برف بخارات بن کر اڑ گئی مگر یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوسکا۔

تو پھر عجیب خیاالات سامنے آئے جیسے کسی خلائی مخلوق کا اسیس کرافٹ اس مقام پر گر کر تباہ ہوا۔

مزید پڑھیں : 6 دہائیوں سے معمہ بنی ہوئی تصویر جس کا راز اب تک معلوم نہیں ہوسکا

1958 میں محققین نے اس مقام سے سلیکیٹ اور مقناطیسی پتھر کے ننھے ذرات کو دریافت کیا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہاں کی سطح میں نکل کی مقدار زیادہ ہے جو شہاب ثابت کا ایک جانا مانا عنصر ہے۔

مگر بحث تھم نہیں سکی اور 1973 میں ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ایک بلیک ہول کا زمین سے ٹکراؤ اس دھماکے کا نتیجہ ہوا مگر اس کی تردید پر مبنی تحقیق بھی فوری طور پر سامنے آگئی۔

2014 میں یوکرین کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھماکے کے مقام سے 1978 میں اکٹھے کیے جانے والے چٹانی نمونوں کا تجزیہ کیا اور انہوں نے 1908 کی ایک تہہ کو دریافت کیا۔

دنگ کردینے والی داستان : وہ باہمت شخص جو سمندر میں گم ہوکر 438 دن گزار کر زندہ بچ گیا

ماہرین نے کاربن منرل lonsdaleite کے آثار دریافت کیے، جو اس وقت تشکیل پاتا ہے جب کوئی شہاب ثابت زمین سے ٹکراتا ہے۔

مگر یہ بھی واضح نتیجہ نہیں تھا اور 2020 میں ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ایک بڑا آئرن شہاب ثاقب زمین کے اتنے قریب آگیا کہ بہت بڑا شاک ویو پیدا کرسکے، مگر ٹکڑے ہوئے بغیر زمین کے پاس سے گزر گیا، اور شاک ویو کا اثر اس خطے میں دیکھنے پر آیا۔

تو یہ واقعہ اب تک انسانی تاریخ کے چند پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے جس پر اب تک تحقیقی کام جاری ہے اور آنے والے برسوں میں اس حوالے سے مزید خیالات سامنے آتے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں