کراچی: این اے-249 ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل کامیاب

اپ ڈیٹ 30 اپريل 2021
عبوری نتیجے کے مطابق پی پی پی کے قادر خان نے 16 ہزار 156 ووٹس حاصل کیے — تصویر: فیس بک
عبوری نتیجے کے مطابق پی پی پی کے قادر خان نے 16 ہزار 156 ووٹس حاصل کیے — تصویر: فیس بک

رات بھر کے طویل انتظار کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار قادر خان مندوخیل کراچی کے حلقہ این اے-249 میں ضمنی انتخاب میں فاتح قرار پائے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ عبوری نتیجے کے مطابق قادر خان نے 16 ہزار 156 ووٹ حاصل کیے۔

ان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسمٰعیل 15 ہزار 473 ووٹ حاصل کر کے دوسرے اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مفتی نذیر احمد کمالوی 11 ہزار 125 ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔

غیر حتمی نتیجے کے مطابق پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ سید مصطفیٰ کمال چوتھے نمبر پر 9 ہزار 227 ووٹ حاصل کرسکے اور اس سے قبل اس حلقے سے کامیاب ہونے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) محض 8 ہزار 922 ووٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر آئی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے حلقہ این اے-249 میں ضمنی انتخاب 29 اپریل کو ہوگا، الیکشن کمیشن

غیر حتمی نتیجے کے مطابق ضمنی انتخاب کے دوران مجموعی طور پر 73 ہزار 471 ووٹس ڈالے گئے جن میں سے 731 مسترد ہوئے اور ٹرن آؤٹ 21.64 فیصد رہا۔

حلقہ این اے-249 کراچی غربی سال 2018 میں این اے-239 اور این اے-240 میں شامل کچھ علاقوں کو ملا کر تشکیل دیا گیا تھا۔

مذکورہ نشست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نومنتخب سینیٹر فیصل واڈا کی جانب سے مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مستعفی ہوجانے کے بعد خالی ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ فیصل واڈا نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی غربی ٹو کے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو محض 718 ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔

سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

ضمنی انتخاب میں اپنی جماعت کی کامیابی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صرف ایک جملہ کہا کہ 'شکریہ کراچی NA249#'

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے ضمنی انتخاب کا نتیجہ مسترد کردیا۔

وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے دعویٰ کیا کہ 'یہ واضح ہے کہ اس گڑبڑ میں دغا باز پی پی پی اور صوبائی الیکشن کمیشن کا ہاتھ تھا'۔

علی زیدی نے مزید کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ہوئے الیکشن میں انتہائی کم ٹرن آؤٹ کے ساتھ 8 گھنٹوں بعد ہر امیدوار رونا رو رہا ہے سوائے اس کے جو اس دوڑ میں کہیں نہیں تھا۔

ادھر رات بھر ٹوئٹر پر متحرک رہنے والی مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ صرف چند سو ووٹس کے ذریعے مسلم لیگ (ن) سے الیکشن چوری کرلیا گیا۔

مریم نواز نے کہا کہ 'الیکشن کمیشن کو اس سب سے زیادہ متنازع الیکشنز میں سے ایک الیکشن کا نتیجہ روکنا چاہیے، اگر وہ نہ روکے تو کامیابی عارضی ہوگی اور واپس جلد ہی مسلم لیگ (ن) کے پاس آجائے گی۔

ایک اور ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی اورخصوصاً این اے 249 کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا اور مفتاح اسمٰعیل کو منتخب کیا۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ ہم سب کے لیے ایک بہت اہم فتح ہے، عوام کے جاگنے کا بھی شکریہ، آپ کے ووٹ چوری کرنے والے جلد آپ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے انشااللّہ، یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے!'

انتخابی دن

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق حلقے میں 276 پولنگ اسٹیشنز میں 796 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے، جن میں سے 184 پولنگ اسٹیشنز کو حساس جبکہ 92 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔

ضمنی انتخاب کے سلسلے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور انتظامیہ نے ضلع میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا تھا۔

اس نشست پر ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں میں پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ و سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال بھی شامل تھے۔

ان کے علاوہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے نمایاں امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسمٰعیل، پی ٹی آئی کے امجد آفریدی، پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل، ایم کیو ایم پاکستان کے محمد مرسلین اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احمد کمالوی شامل تھے۔

پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو حلقے سے نکلنے کا حکم

ضمنی انتخاب کے موقع پر پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی مذمت کرتے ہیں کہ رمضان اور گرمی کے دوران انتخاب شیڈول کیا۔

ان کا کہنا تھا یہ جمہوریت کے خلاف سازش کی گئی ہے، الیکشن کمیشن کا کام جمہوریت کو فروغ دینا ہے، کراچی: چھٹی کے دن الیکشن رکھنا چاہیے تھا تاکہ زیادہ لوگ حق رائے دہی استعمال کرسکتے۔

بعدازاں ڈی آر او سید ندیم حیدر نے پی ٹی آئی کے دونوں اراکینِ صوبائی اسمبلی فردوس نقوی اور بلال غفار کو حلقے سے فوری نکلنے کا حکم دے دیا۔

انہوں نے 2 علیحدہ مراسلے جاری کرتے ہوئے دونوں کو حلقے سے نکلنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پولنگ کے دوران علاقے میں اراکین اسمبلی نہیں آسکتے۔

دوسری جانب ایک بیان میں پی ٹی آئی امیدوار امجد اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو حلقے میں پولیس گردی نظر نہیں آرہی؟ مختلف پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کو روکنے کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ترجمانی کررہی ہے اور الیکشن کمیشن کا عملہ پولیس کے آگے بے بس دکھائی دے رہا ہے۔

پی ٹی آئی کا ضمنی انتخاب میں برتری کا دعویٰ

قبل ازیں پولنگ ڈے پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں این-اے 249 کے انتخابات کے سلسلے میں کیے گئے تمام سروے بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کو تمام جماعتوں پر سبقت حاصل ہے، ان شاللہ آج کا دن تحریک انصاف کا دن ہو گا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ایک بیان میں عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ گھروں سے نکلیں اور ووٹ کے اپنے آئینی و جمہوری حق کو پوری ذمہ داری سے استعمال کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے نواز شریف کو ووٹ دیا، مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلہ دیا جنہوں نے عوام کے اعتماد کوکبھی ٹھیس نہیں پہنچائی اور جن کا ریکارڈ ہمیشہ وعدوں کو پورا کرنے کا رہا ہے، تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے بنیادی مسائل ان شااللہ لازمی حل ہوں گے۔

شہباز شریف نے کہا تھا کہ مجھے پورا اعتماد اوریقین ہے کہ آپ ماضی کی طرح ایک بار پھر درست فیصلہ کریں گے اور ملک و قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالنے میں اپنا عملی کردار ادا کریں گے، انشااللہ۔

الیکشن کمیشن کی ہدایات

الیکشن کمیشن کے مطابق اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 591 ہے جن میں سے 2 لاکھ ایک ہزار 656 مرد ووٹرز جبکہ ایک لاکھ 37 ہزار 935 خواتین ووٹرز ہیں۔

مزید پڑھیں: فیصل واڈا کو مستعفی ہونے کے باعث نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ

الیکشن کمیشن نے پریزائیڈنگ افسران کو ہدایت کی تھی کہ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں فارم-45 کی تصاویر ریٹرننگ افسران کو بھیجی جائیں۔

ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تصاویر لیتے ہوئے اپنے موبائل فونز کی لوکیشن آن رکھیں۔

کمیشن کی جانب سے پریزائیڈنگ افسران کو ہدایت کی گئی تھی کہ نتائج جمع کروانے کے لیے انتظار نہ کیا جائے اور اگر نیٹ ورک ڈاؤن ہو تو اس قسم کے کیسز میں فوری طور پر ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچ کر پولنگ کا ریکارڈ جمع کروایا جائے۔

الیکشن کمیشن نے پولنگ ایجنٹس کو بھی فارم-45 کی دستخط شدہ نقول فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی اور پولنگ ایجنٹس سے بھی کہا گیا تھا کہ فام 45 کی نقل حاصل کیے بنا پولنگ اسٹیشنز سے نہ جائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں