امریکی انخلا کا آغاز ہوتے ہی ہزاروں افغان خاندانوں کی تشدد سے بچنے کیلئے نقل مکانی

اپ ڈیٹ 05 مئ 2021
خاندانوں نے لشکر گاہ میں پناہ لی ہے اور وہ ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں گزشتہ دو روز میں لڑائی اپنے عروج پر تھی، ڈائریکٹر پناہ گزین — فائل فوٹو: اے پی
خاندانوں نے لشکر گاہ میں پناہ لی ہے اور وہ ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں گزشتہ دو روز میں لڑائی اپنے عروج پر تھی، ڈائریکٹر پناہ گزین — فائل فوٹو: اے پی

قندھار: امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی افغان صوبے ہلمند میں سرکاری فوج اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی شروع ہونے پر ہزاروں افغان باشندے نقل مکانی کرنے لگے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز نے جنوبی صوبے ہلمند میں متعدد چوکیوں پر طالبان کو پیچھے دھکیلنے کا دعویٰ کیا جہاں یکم مئی کو باقاعدہ انخلا شروع ہونے کے بعد امریکی فوج نے اتوار کے روز ایک بیس سرکاری فوج کے حوالے کردیا تھا۔

پناہ گزینوں کے لیے اس خطے کے ڈائریکٹر سید محمد رامین نے بتایا کہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے نواح میں اور صوبے کے چند دیگر حصوں میں لڑائی کے بعد تقریباً ایک ہزار خاندانوں نے نقل مکانی کی۔

انہوں نے بتایا کہ ان خاندانوں نے لشکر گاہ میں پناہ لی ہے اور وہ ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں گزشتہ دو روز میں لڑائی اپنے عروج پر تھی۔

مزید پڑھیں: افغان صدر کا طالبان سے جنگ ختم کرنے، اقتدار میں شامل ہونے کا مطالبہ

سید محمد رامین نے کہا کہ 'ہم کل ان کی ضروریات کا جائزہ لیں گے تاہم بہت سارے ایسے ہیں جن کو ابھی تک شہر میں پناہ نہیں ملی ہے، انہیں فوری امداد کی ضرورت ہے'۔

وزارت دفاع نے بتایا کہ ہلمند میں جب طالبان نے لشکر گاہ کے مضافات میں چند چوکیوں پر حملہ کیا تو سرکاری فوج نے 100 سے زائد طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کردیا۔

وزارت نے دعویٰ کیا کہ اس لڑائی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے مزید 22 جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ طالبان جنگجوؤں نے ابتدائی طور پر چند چوکیوں پر قبضہ کر لیا تھا تاہم سرکاری فوج نے قبضہ چھڑایا اور طالبان کو پیچھے دھکیل دیا۔

ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطااللہ افغان نے کہا کہ 'دشمن نے اب ان تمام علاقوں کو کھو دیا ہے جن پر اس نے قبضہ کیا تھا اور اسے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے'۔

دوسری جانب طالبان نے دعویٰ کیا کہ اس لڑائی میں ایک بڑی تعداد میں افغان فوجی مارے گئے ہیں۔

دونوں فریقین، ایک دوسرے کی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت، طاقتور مقامی جنگجو کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا

خیال رہے کہ یکم مئی سے امریکا کی جانب سے اپنے بقیہ ڈھائی ہزار فوجیوں کے باضابطہ طور پر انخلا کے آغاز کے بعد کئی دیگر صوبوں میں بھی لڑائی شروع ہوگئی ہے۔

پینٹاگون نے اس لڑائی کو مذمت کی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ 'ہم نے ابھی تک ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس نے انخلا کو متاثر کیا ہو یا جس سے افغانستان میں موجود مشن پر کوئی خاص اثر پڑا ہو'۔

گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکی اور اتحادی نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کرنے اور طالبان حکومت کو بے دخل کرنے کے تقریباً 20 سال بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ حتمی انخلا کا حکم دیا تھا۔

سرکاری افواج پر طالبان کے حملوں نے یہ خدشات پیدا کردیے ہیں کہ انخلا کے دوران امریکی افواج بھی خطرے میں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں