بھارت میں کووڈ 19 کے مریضوں میں ایک اور جان لیوا پیچیدگی کا انکشاف ہوا ہے۔

طبی حکام کی جانب سے ایک فنگل انفیکشن کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے جسے کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں دریافت کیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق یہ انفیکشن شکل کو بگاڑنے کے ساتھ موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی جانب سے 9 مئی کو ایک بیان میں بتایا گیا کہ میوکورمائیکوسس (Mucormycosis) نامی اس بیماری کو بلیگ فنگس انفیکشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو نتھنوں یا پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

آئی سی ایم آر کچھ وقت سے ادویات کا استعمال کرنے والے یا آئی سی یو میں زیادہ وقت گزارنے والے مریضوں میں اس انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہے۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کچھ کووڈ کے مریضوں کو اس انفیکشن کے باعث بینائی سے محرومی کے ساتھ جبڑوں کو نکالنا پڑا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ 19 دن سے چین میں روزانہ 3 لاکھ سے زیادہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور ریکارڈ تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

پورے ملک میں آکسیجن کی کمی سے کورونا کے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور یہ نیا انفیکشن بھی اسی کا نتیجہ ہے، یعنی آکسیجن پائپس میں آلودگی۔

ماہرین کے مطابق یہ انفیکشن درحقیقت ذیابیطس سے جڑا ہوتا ہے۔

یہ فنگس سانس کی نالی کے ذریعے حملہ آور ہوتی ہے اور بھارت میں کووڈ کی وبا سے پہلے بھی موجود تھی مگر اب زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔

آئی سی ایم آر کے مطابق اس کی علامات میں آنکھوں اور ناک کے ارگرد تکلیف اور سرخی، سانس لینے میں مشکلات، خون کی الٹی اور ذہنی حالت میں تبدیلیاں قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ متاثرہ مریض کے بلڈ گلوکو کی سطح کو مانیٹر کریں، آکسیجن تھراپی کے لیے ہومیفائڈر میں صاف اور خالص پانی استعمال کریں۔

آئی سی ایم آر نے انتباہ کیا کہ اسٹرائیڈز جیسے ڈیکسامیتھاسون کا حد سے زیادہ استعمال اس انفیکشن کے بدترین ہونے کا باعث بن سکتا ہے جس کا استعمال کووڈ کے سنگین کیسز میں ہوتا ہے۔

یہ فنگل انفیکشن بھارت میں کووڈ کے مریضوں کے لیے نئی پیچیدگی کی صورت میں ابھرا ہے۔

برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ نے بتایا کہ اس طرح کے کیسز متعدد ممالک بشمول برطانیہ، امریکا، فرانس، آسٹریا، برازیل اور میکسیکو میں رپورٹ ہوئے ہیں، مگر بھارت میں ان کی تعداد بہت زیادہ نظر آتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ ذیابیطس کے مریضوں کی بہت زیادہ تعداد ہے جن میں ذیابیطس کو کنٹرول نہیں کیا جارہا۔

بھارت میں اس فنگس کے کیسز کا ڈیٹا تو جاری نہیں ہوا مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست مہاراشٹرا اور گجرات میں اس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

آئی سی ایم آر کی سائنسدان اپرنا مکھرجی نے بتایا کہ اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، مگر اس حوالے سے خبردار ضرور رہنا چاہیے۔

بھارتی شہر چندی گڑھ کے سینٹر آف ایڈوانسڈ ریسرچ ان میڈیکل مائیکولوجی کے سربراہ ارونلوک چکرورتی نے بتایا کہ کووڈ 19 سے قبل بھی یہ انفیکشن دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارت میں عام تھی جس کی وجہ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کروڑوں میں ہونا ہے۔

ممبئی کے ایک ہسپتال کے طبی ماہی پی سریش نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں گزشتہ 2 ہفتے کے دوران کم از کم 10 مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جو وبا سے قبل کے مقابلے دوگنا زیادہ تعداد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ سب مریض کووڈ 19 سے متاثر تھے اور اکثریت ذیابیطس کے مریض تھے یا مدافعتی افعال دبانے والی ادویات کا استعمال کررہے تھے۔

ان میں سے کچھ ہلاک ہوگئے جبکہ کچھ کو بینائی سے محروم ہونا پڑا، کچھ اکٹروں کے خیال میں آکسیجن پائپس اور ہومیفائڈر میں آلودگی بھی اس کی وجہ وہسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں