کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو اس وائرس کو بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

امریکا کے اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں جرمنی اور نیدرلینڈز کے ماہرین نے بھی کام کیا تھا اور اس میں میوٹیشنز کے بارے میں اہم تفصیلات کا انکشاف کیا گیا۔

تحقیق میں اسٹرکچرل بائیولوجی تیکنیکس کا استمال کرکے جانچ پڑتال کی گئی کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کس طرح وائرس کی اوریجنل قسم اور نئی اقسام کے خلاف کام کرتی ہیں اور ان کے افعال برطانیہ، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل میں دریافت اقسام کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

کورونا کی تشویش کا باعث بننے والی اقسام میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117، جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بی 1351، برازیل میں دریافت قسم پی 1 اور بھارت میں دریافت قسم بی 1617 شامل ہیں۔

یہ اقسام ووہان میں پھیلنے والی وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں زیادہ متعدی قرار دی جاتی ہیں اور حالیہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خلاف اوریجنل وائرس سے بیمار ہونے کے بعد یا ویکسینشیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کم مؤثر ہوتی ہیں۔

چونکہ ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی اقسام کچھ کیسز میں ویکسینیشن کے باوجود لوگوں کو بیمار کرسکتی ہیں اور اسی لیے ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ یہ اقسام کس طرح مدافعتی ردعمل سے بچنے کے قابل ہوتی ہیں۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں آنے والی 3 میوٹیشنز کے 417 این، ای 484 کے اور این 501 وائے پر توجہ مرکوز کی۔

اکٹھے یا الگ الگ یہ میوٹیشنز کورونا کی بیشتر نئی اقسام میں دریافت ہوئی ہیں اور یہ سب وائرس کے ریسیپٹر کو جکڑنے والے مقام پر ہیں۔

محققین نے اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ان میں سے بیشتر اینٹی باڈیز کی وائرس کو جکڑنے اور اسے ناکارہ بنانے کی صلاحیت کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔

اسٹرکچرل امیجنگ تیکنیکس کو استعمال کرکے محققین نے وائرس کے مختلف حصوں کا نقشہ بناکر جانچ پڑتال کی کہ کس طرح میوٹیشنز ان مقامات پر اثرانداز ہوتی ہیں جن کو اینٹی باڈیز جکڑ کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی اوریجنل قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کا ردعمل بہت مؤثر ہوتا ہے مگر مخصوص اقسام اس سے بچنے کی اہلیت رکھتی ہیں، چنانچہ بتدریج ویکسینز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اسی طرح تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 3 میوٹیشنز سے ریسیپٹر کو جکڑنے والے مقام سے ہٹ کر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں