کسی پریشر گروپ کو حکومتی پالیسی ڈکٹیٹ کرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی خارجہ امور کمیٹی کے ساتھ ورچوئل ملاقات میں اظہار خیال کیا—فائل فوٹو: اے پی
وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی خارجہ امور کمیٹی کے ساتھ ورچوئل ملاقات میں اظہار خیال کیا—فائل فوٹو: اے پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کسی مسلح یا پریشر گروپ کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے اور حکومت کو پالیسیز ڈکٹیٹ کرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یورپی یونین کی خارجہ امور کمیٹی کے ساتھ ورچوئل ملاقات میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان توہین رسالت سے متعلق قوانین کے حوالے سے یورپی پارلیمان میں منظور کردہ قرارداد پر مایوس ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی پارلیمان میں ہونے والا اقدام توہین رسالت کے قوانین سے متعلق نہ سمجھی اور پاکستان میں اس سے منسلک مذہبی جذبات سے پوری واقفیت نہ ہونے کا مظہر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اقوام متحدہ اب مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں، شاہ محمود قریشی

انہوں نے کہا کہ ہمیں پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات اور دیگر مقدس شعائر و علامات سے وابستہ مذہبی جذبات کے ادراک کی ضرورت ہے، کسی بھی اور جمہوری اور آزاد معاشرے کی طرح ہماری اظہار رائے کی اپنی اقدار ہیں تاہم اس حق کا دوسروں کے مذہبی احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ دانستہ اشتعال بھڑکانے اور اکسانے، نفرت پھیلانے اور تشدد کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اور عالمگیر سطح پر اسے قانون کے خلاف قرار دینا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہماری حکومت نے یورپ میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور قرآن پاک کی بے حرمتی سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے اور حالیہ رپورٹس کے بعد بنیاد پرست گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے۔

مزید پڑھیں:پاک، سعودیہ تعلقات میں دراڑ کے خواہشمندوں کے عزائم خاک میں مل گئے، شاہ محمود قریشی

ان کا کہنا تھا کہ دنیا غیر ملکیوں اور اسلاموفوبیا کے خلاف بڑھتی ہوئی لہر کا مشاہدہ کررہی ہے، ہمیں مذہب یا عقائد کی بنیاد پر عدم برداشت، اشتعال انگیزی اور تشدد پھیلانے والوں کے خلاف مشترکہ عزم دکھانا ہوگا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے نئی قانون سازی کی گئی ہے، اس ماہ کے اوائل میں وفاقی کابینہ نے صحافیوں اور میڈیا کے تحفظ اور جبری گمشدگیوں کے انسداد کا (فوجداری قانون ترمیمی) بل منظور کیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دنیا کے معاشی تعاون میں شمولیت چاہتے ہیں اور امن و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں، ہماری توجہ جیوپالیٹیکس سے جیواکنامکس کی طرف بدل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان 22 کروڑ افراد کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے جہاں 30 سال سے کم عمر کے 60 فیصد افراد بستے ہیں اور پاکستان تجارت اور سرمایہ کاری کے لاتعداد مواقع پیش کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:شاہ محمود کی سربراہ اقوامِ متحدہ سے ملاقات، فلسطینیوں کی حمایت کا اعادہ

انہوں نے کہ معاشی سلامتی کے بیچ میں پاکستان کی توجہ مندرجہ ذیل اقدامات پر ہے:

(i) رابطوں کے ذریعے وسطی و جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے تجارت، ٹرانزٹ اور توانائی کے بہاؤ کا فروغ

(ii) ترقیاتی حکمت عملی کے طورپر معاشی بنیادوں کی فراہمی

(iii) داخلی اور خارجہ سطح پر امن کا قیام

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن و استحکام ہمارے علاقائی معاشی یکجائی اور خطے سے پار رابطے استوار کرنے کے لیے نہایت ناگزیر ہے، پاکستان مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے سے افغانستان میں لڑائی کا خاتمہ چاہتا ہے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر مضبوطی سے کاربند ہے، بدقسمتی سے ہماری امن کے لیے کاوشوں کا بھارت نے اسی جذبے سے جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں امریکا کو فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین ڈس انفو لیب کے انکشاف سے بھارتی مذموم سرگرمیاں بے نقاب ہوئی ہیں اور ہم یورپی یونین اتھارٹیز پر زور دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف اس بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی غلط اور گمراہ اطلاعات کی مہم کا نوٹس لیں اور کسی تیسرے ملک کو یورپی یونین کے اداروں کے نام غلط طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ جیوپولیٹیکل فالٹ لائنز نہ صرف پھر جنم لے رہی ہیں بلکہ اور زیادہ گہری بھی ہورہی ہیں، تقریبا تمام خطوں میں اسٹریٹجک عدم استحکام، کا خطرہ لاحق ہے اور ریاستوں کے درمیان باہمی اعتماد اور احترام ختم ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے پہلے سے زیادہ خطرات پیدا ہورہے ہیں جبکہ ہائیبرڈ اور سائبر خطرات سے پیدا ہونے والی مشکلات سیکیورٹی پہلو کو دنیا بھر میں تبدیل کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور جھوٹی اور جعلی اطلاعات کو ریاستی حربے کے طورپر استعمال کرتے ہوئے پھیلایاجارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں