18 سال کی عمر میں لازمی شادی کرانے کے مجوزہ بل پر ٹوئٹر صارفین حیرت زدہ

اپ ڈیٹ 27 مئ 2021
یہ بل گزشتہ روز جمع کرایا گیا—فائل فوٹو: فارس غنی
یہ بل گزشتہ روز جمع کرایا گیا—فائل فوٹو: فارس غنی

گزشتہ دنوں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے رکنِ سندھ اسمبلی نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں کی شادی نہ کرانے کی صورت میں والدین پر جرمانہ عائد کرنے کی تجویز پر مبنی مسودہ، سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرایا تھا۔

کمپلسری میرج ایکٹ 2021 کے نام سے 2 صفحات پر مشتمل قانونی مسودے میں کہا گیا کہ صوبے بھر میں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے تمام عاقل و بالغ افراد کی شادی کو لازمی قرار دیا جائے۔

مسودے میں کہا گیا تھا کہ اگر 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی شادی میں تاخیر ہوتی ہے تو والدین کو ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے شادی میں تاخیر کی ٹھوس وجوہات پر مبنی حلف نامہ جمع کرانا ہوگا۔

مزید پڑھیں :سندھ میں 18 سال سے زائد عمر کے افراد کی شادی نہ کرانے پر والدین پر جرمانے کی تجویز

مزید کہا گیا تھا کہ اگر والدین شق نمبر 2 کے تحت حلف نامہ جمع کرانے میں ناکام ہوئے تو ان پر فی کس 500 روپے جرمانہ عائد ہوگا۔

اس حوالے سے جاری ویڈیو پیغام میں سید عبدالرشید نے کہا تھا کہ کمپلسری میرج ایکٹ 2021 کے نام سے بل کا مسودہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرایا ہے اور میری دعا ہے کہ یہ بل منظور ہوجائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سندھ کے نوجوانوں کی ترقی، خوشحالی اور ان کے لیے فلاح اور اصلاح کے راستے کو ہموار کروانے کے لیے اسمبلی کے تمام اراکین اسے منظور کروائیں۔

سید عبدالرشید نے کہا تھا کہ معاشرتی خرابیاں اور بچوں کے ساتھ ریپ، غیراخلاقی سرگرمیوں کے بڑھتے رجحانات کے لیے مسلمان بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے بعد اسلام نے شادی کا حق دیا ہے۔

مذکورہ مجوزہ بل کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اکثر صارفین نے اسے 'مضحکہ خیز ' قرار دیا۔

صحافی اور فلم ساز منیزے جہانگیر نے اس خبر کو 'دلچسپ' قرار دیا۔

جس پر ایک صارف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس طرح کے بل دانستہ طور پر اسمبلیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس بل کو قابلِ افسوس قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلیوں میں اور سڑکوں پر موجود افراد کے مابین تعلق نہ ہونے کی مثال ہے۔

دیگر صارفین نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

سیاستدان اور سماجی کارکن جبران ناصر جو صوبے میں اقلیتی برادری سے وابستہ لڑکیوں کی جبری شادیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں انہوں نے اس بل پر مایوسی کا اظہار کیا۔

جبران ناصر نے لکھا کہ یہ مجوزہ بل صرف مسلمانوں کے لیے ہے کیونکہ ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو کم عمری میں شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

نادیہ نامی صارف نے اس مجوزہ بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس مسئلے کو مؤثر انداز میں حل نہیں کرتا جو یہ بظاہر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس دوران انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے کیے گئے جبکہ اسی معاملے پر کئی میمز بھی وائرل ہوئیں۔

کچھ نے دعویٰ کیا کہ بل پاس پوگیا، دیگر نے کہا کہ اس بل کی حمایت حکومت کررہی ہے تاہم یہ سب غلط معلومات ہیں اور ابھی صرف بل کا مسودہ جمع کرایا گیا ہے اور اس کے منظور ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

دیگر صارفین نے اس مجوزہ بل کے حوالے سے افواہوں اور میمز کی وجہ سے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ بل پیش ہوا ہے اور شاید ہی منظور ہو۔

بختاور بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کی اور لکھا کہ یہ بل جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے پیش کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی اسے 'کچل' دے گی۔

ایک صارف نے کہا کہ پاکستان میں 18 برس کے افراد کو کورونا ویکسین کے لیے رجسٹر کروانے کی اجازت نہیں ہے لیکن انہیں فوری طور پر شادی کرلینی چاہیے۔

ایک اور صارف نے کہا کہ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو سب سے پہلے بلاول بھٹو کو جرمانہ ہونا چاہیے۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ سیدعبدالرشید سندھ اسمبلی میں اپنی جماعت کے واحد رکن ہیں اور یہ اسپیکر اسمبلی کا اختیار ہے کہ وہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمر میں شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور

اگر اس بل کو پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس پر رائے شماری ہوگی اور اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں یہ بل منظور ہو کر قانون کی صورت اختیار کرے گا۔

چونکہ سید عبدالرشید ایم ایم اے کے رکن ہے تو اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ انہیں بل کی منظوری کے لیے اراکین کی حمایت حاصل ہوگی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہی ہے اور 2019 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل بھی منظور کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں