کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 30 مئ 2021
وزیراعظم عمران خان نے سوالوں کے جواب دیے—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے سوالوں کے جواب دیے—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی اور اگر ہم اس وقت بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے 'آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ' کے عنوان سے عوام سے لائیو ٹیلی فون پر ان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانیاں پیدا کرتا ہے اور مشکل وقت میں اللہ چاہتا ہے کہ ہم صبر کریں۔

مزید پڑھیں: شرح نمو 4 فیصد ہونے پر مخالفین حیران ہیں اور جھوٹ کا الزام لگا رہے ہیں، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ زندگی اونچ نیچ کا نام ہے، اصل زندگی وہ ہوتی ہے کہ جدوجہد کرکے اوپر جاتے ہیں اور مشکل وقت میں پیچھے چلے جاتے ہیں پھر سیکھتے ہیں، جو مشکل وقت سے ہار مانتا ہے وہ ہار جاتا ہے، جو مشکل وقت سے سیکھتا اور محنت کرتا ہے وہ مضبوط ہوتا ہے، یہ زندگی کا سائیکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں حکومت ملی، کبھی کسی حکومت کو اتنے مسئلے مسائل نہیں ملے، جتنے ہماری حکومت کو 2018 میں ملے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب تک آمدنی نہیں بڑھتی مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے اسی لیے پہلے دن اپنی قوم سے کہا تھا کہ ہمیں ایک مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایک ملک دیوالیہ ہوجائے تو اس کو اپنے آپ کو اٹھانے کے لیے وقت چاہیے۔

'4 فیصد شرح نمو خوش آئند ہے'

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کامیابی ملی ہے اس پر مجھے خوشی ہے کیونکہ کوئی یہ اُمید لگا کر نہیں بیٹھا تھا کہ تقریباً 4 فیصد گروتھ ہوگی بلکہ کئی ماہر سمجھتے ہیں کہ ساڑھے 4 فیصد یا اس سے بھی اوپر جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ جو ہم سوچ رہے تھے اور خاص کر ہمارے مخالف جو سوچ رہے تھے اس سے زیادہ تیزی سے ہم اوپر گئے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کی سب سے زیادہ دو مشکلات ہیں، جو مہنگائی اور بے روزگاری ہے، جیسے گروتھ ریٹ بڑھتا ہے، معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوتا ہے، گاڑیاں بننی شروع ہوتی ہیں جو 55 فیصد گاڑیوں کی فروخت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.94 فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی

ان کا کہنا تھا کہ ٹریکٹروں اور موٹرسائیکلوں کی فروخت مزید 60 فیصد بڑھ گئی ہے، جب یہ بننے شروع ہوتے ہیں تو روزگار ملتا ہے اور غربت کم ہوتی ہے، یہ پہلا ایک خوش آئند قدم ہے۔

'اپوزیشن پھنس گئی ہے'

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت ہماری اپوزیشن، جس نے پہلے دن کہا کہ یہ نااہل ہیں انہیں نکال دینا چاہیے حالانکہ ہم شروع ہوئے تھے لیکن انہیں مشکلات کا پتا تھا۔

اپوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں این آر او دے دو گے تو آپ نااہل نہیں ہوگے، این آر او نہیں دو گے تو حکومت نہیں چلنے دیں گے، پاکستانی فوج کو کہتے ہیں منتخب حکومت کو گرادو۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، کوئی ثبوت بھی نہیں دیا، ہم نے پچھلے الیکشن میں ہم نے 4 حلقوں کا بتایا تھا لیکن اب وہ پھنس گئے ہیں کہ اتنی نااہل حکومت تھی تو اتنی 4 فیصد شرح نمو کیسے آگئی کیونکہ انہوں نے خود کہا تھا کہ نااہل ہو پھر پھنس گئے ہیں، تو کہتے ہیں آپ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اللہ نے ہمیں بڑے مشکل وقت اور امتحان سے گزارا ہے اور اب انشااللہ اس ملک کو مزید آگے بڑھتے دیکھیں گے۔

'جسٹس عظمت کی زیر سرپرستی ہاؤسنگ سوسائیٹیز پر کمیٹی'

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک بورڈ بنایا ہے کہ ملک میں اتنی زیادہ ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنی ہیں ان کا پتا لگائیں کہ کون سی قانونی اور کون سی غیرقانونی ہیں اور یہ سب ویب سائٹ پر آئے گا تاکہ لوگوں کے ساتھ دھوکا نہ ہو۔

مزید پڑھیں: آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اگر ہاؤسنگ سوسائیٹز شرائط پوری نہیں کریں گی تو انہیں منظوری نہیں دی جائے گی، پھر مختلف غیرقانونی سوسائیٹیز کو بند کردیں گے اور ایسی غیرقانونی سوسائیٹیز جہاں لوگ اب رہنے لگے ہیں تو اس کے لیے الگ نظام لے کر آرہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عظمت کی زیر سرپرستی ایک کمیٹی بنائی ہے جو باقاعدہ کیٹگرائز کررہی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی زمینیں بیچ دیں اور ان کے پاس پلاٹس نہ ہو پھر وہ پیسے لے کر باہر بھاگ جاتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اسے بچنے کے لیے پورا کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔

'کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی'

خارجہ امور کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر بات کروں گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں، ایک طرف ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، دوسری طرف بھارت ایک ارب سے زائد آبادی کے ساتھ بڑی مارکیٹ ہے، تو ہمارے رابطے ہوں اور تجارت شروع ہوجائے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے، جب یورپی یونین بنی تھی تو سب کو فائدہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں، اسی لیے میں نے حکومت میں آنے کے بعد پوری کوشش کی کہ بھارت سے تعلقات اچھے ہوں، ایک ہی مسئلہ کشمیر ہے جس کو بات چیت سے حل کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس وقت بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے، ان کی ساری جدوجہد اور تقریباً ایک لاکھ شہدا کو نظر انداز کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن کشمیر کا خون ضائع ہوجائے گا، لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر پر بھی او آئی سی کی مؤثر حمایت حاصل کرنی چاہیے، شیریں مزاری

انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ انہوں نے کس قسم کی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، اس لیے ان کے خون پر پاکستان کی تجارت بہتر ہوگی تو یہ نہیں ہوسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائے تو پھر بات ہوسکتی ہے، پھر ہم مسئلہ کشمیر پر ایک روڈ میپ لاسکتے ہیں اور بات بھی کرسکتے ہیں۔

'فلسطین کے حوالے سے دنیا میں شعور بیدار ہورہا ہے'

فلسطین پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کی طرح ہے، وہاں بھی ان کی زمینوں پر قبضہ ہے لیکن کشمیر میں ابھی شروع ہوا ہے جہاں ان کی زمینوں کی ملکیت تبدیل کر رہے ہیں، یعنی باہر سے لا کر کشمیر میں لوگوں کو بسا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح فلسطین تھوڑا سا رہ گیا ہے باقی سب پر اپنے لوگ لا کر بسایا اور قبضہ کرلیا ہے، فلسطین میں لوگوں کو ڈرا کر خوف سے دبائیں گے کیونکہ ان کے پاس طاقت ور فوج ہے لیکن یہ حل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنا ظلم کریں گے کہ وہ چپ کرکے غلام بن جائیں گے، سب کو پتا ہے یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'دو حل ہیں یا تو پھر یہ ان کو جس طرح مسلمان اور یہودیوں کو آج سے 5 یا 6 سو سال پہلے اسپین سے سب کو نکال دیا تھا، نسلی بنیادوں کا خاتمہ کردیا تھا، یا تو یہ وہ کریں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ جو ساری دنیا دیکھ رہی ہے، دنیا میں پہلی دفعہ شعور آیا ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے امریکا جیسی جگہ پر پہلی دفعہ لوگ شروع ہوگئے ہیں کہ فلسطین میں لوگوں پر ظلم ہورہا ہے، مغرب میں ایسا نہیں کہا جاتا تھا تو اس لیے وہ تو ہو نہیں سکتا'۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر 'اقوام متحدہ کی تفتیش' کا خیرمقدم

ان کا کہنا تھا کہ 'یا پھر ان کو دو ریاستی حل نکالنا ہوگا یعنی فلسطینیوں کو منصفانہ گھر دینا پڑے گا، میرے خیال میں اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور دنیا میں جو شعور اور جس طرح کی تحریک چل پڑی ہے، یہ تحریک فلسطینیوں کو ایک حل دینے کی طرف جائے گی'۔

'10 سال میں پاکستان میں 10 ڈیم بنا رہے ہیں'

وزیراعظم نے ایک سوال پر کہا کہ سارے پاکستان میں پانی کا مسئلہ ہے، پاکستان میں 10 ڈیم بنا رہے ہیں جو شروع ہوچکے ہیں جو اگلے دس سال تک مکمل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پانی کے ذخائر بہت پہلے بنانے چاہیے تھے کیونکہ جیسے آبادی بڑھتی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی میں بھی کمی آرہی ہے تو صوبوں کے حصے کے پانی میں بھی کمی آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے طریقہ یہ ہے کہ پہلے ڈیم بنائے جائیں اور پھر صوبوں میں منصفانہ تقسیم ہو، مجھے حیرت ہے کہ ٹیلی میٹری سسٹم کام نہیں کر رہا ہے، اس ٹیکنالوجی پر ہم خرچہ کر رہے ہیں جو کام شروع کردے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کے اندر بھی پانی کی تقسیم بھی مسئلہ ہے کیونکہ کمزور کسان کا پانی چوری ہوتا ہے، طاقت ور اپنی زمینوں کو پانی لے جاتا ہے اور کمزور کی زمین خشک رہ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان صوبوں میں، جہاں ہماری حکومت ہے، وہاں یہ اقدامات کریں گے لیکن سندھ کی حکومت کو خود کرنا ہے اور اگر انہیں رینجرز کی ضرورت پڑی تو وہ بھی دیں گے۔

'راولپنڈی کا رنگ روڈ جلد مکمل ہوگا'

رنگ روڈ کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پنڈی کو رنگ روڈ کی اشد ضرورت ہے، یہ اچھا منصوبہ ہے کیونکہ پنڈی سے باہر بہت ٹریفک جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پنڈی کے اندر نالہ لئی کے اندر پوری ایک بزنس ڈسٹرکٹ بنانا چاہتے ہیں یعنی یہ پنڈی کی ری جنریشن ہے، اس کے لیے بھی رنگ روڈ کا بنانا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ورکرز میں سے کسی نے خبر دی کہ رنگ روڈ میں بڑا فراڈ ہو رہا ہے، ایک تو طاقت ور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسے طویل کیا جار رہا ہے اور دوسرا اس کی الائمنٹ کی ہے وہ خطرناک ہے جو لوگوں کو فائدہ دینے کے لیے کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے سے متعلق دو انکوائریوں کا آغاز

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس کے لیے پہلے میں نے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے ذریعے انکوائری کی تو پتا چلا کہ ایسا ہی ہے، اب اینٹی کرپشن کی ٹیم کام کر رہی ہے اور دو ہفتے کے اندر انکوائری کارزلٹ آئے گا پھر اہم ایکشن لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ رنگ روڈ کی تعمیر رکے گی نہیں اور جس طرح اس کو سیدھا ہونا چاہیے تھا اسی طرح ہوگا جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے طویل کی گئی تھی وہ نہیں ہوگی اور ہم فوری طور پر اس میں کام کر رہے ہیں۔

'کسانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں فنڈز دیے'

زراعت پر بات کرتے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے زراعت میں آکر بڑے اقدامات کیے اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں فنڈز دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑا مسئلہ زرعی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچانے کا تھا، جتنا فائدہ کسان کو ہوگا اتنا زیادہ پیسہ وہ اپنی زمین پر لگائے گا تو پیداوار زیادہ ہوگی۔

'صحت کارڈ کو تسلیم نہیں کیا جاتا'

ایک خاتون نے لائیو ٹیلی فون کال پر وزیراعظم سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ کیا صحت کارڈ قابل عمل ہے کیونکہ ہسپتالوں میں لوگوں کے کارڈ تسلیم نہیں کیے جاتے۔

خاتون کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوگوں کو ابھی اس کی عادت نہیں پڑی ہے اس لیے مسئلے ہیں، لوگوں کو نہیں معلوم کہ صحت کارڈ کتنی بڑی نعمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ایک خاندان کو صحت کارڈ پر سالانہ 10 لاکھ روپے مل رہے ہیں، وہ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جا کر 10 لاکھ خرچ تک کوئی بھی علاج کروا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ساہیوال اور ڈیرا غازی خان ڈویژن میں سب کو صحت کارڈ دے دیئے ہیں اور رواں سال کے اختتام پر پنجاب کے تمام اضلاع میں صحت کارڈ پہنچ جائے گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ صرف ایک کارڈ نہیں بلکہ صحت کا نظام ہے، کیونکہ حکومت کے پاس کبھی اتنا پیسہ نہیں آئے گا کہ ملک بھر میں ہسپتالوں کا جال بچھائے، اس لیے نجی ہسپتالوں کی ضرورت ہے اور سارے غریب لوگوں کے پاس کارڈ ہوگا اور وہ کسی بھی ہسپتال سے علاج کروا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اوقاف، ریلوے اور دیگر سرکاری زمینیں ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے دیں گے تاکہ ان کو زمینیں خریدنے میں جو مسائل ہیں وہ حل ہوں اور آنے والے دنوں میں اس سے پرائیویٹ ہسپتالوں کا جال بچھ جائے گا اور یہ صحت کا نظام ہے۔

'ریکارڈ ٹیکس وصولی ہوئی'

شرح نمو کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اب تک 4 ہزار 143 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہوا ہے، ہمارا نظام آٹومیشن پر جارہا ہے، ڈھائی سال سے ٹیکس وصولی کمپیوٹرائز کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ ٹیکس جمع کرنے والے اور ٹیکس دہندہ کے درمیان رابطہ نہ ہو بلکہ آٹومیٹک وصولی ہو اور یہ کئی ممالک میں ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: پہلی مرتبہ گیارہ ماہ کے عرصے میں 41 کھرب 43 ارب روپے ریونیو اکٹھا کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ اب تک بڑی کوششیں کی گئی لیکن بدقسمتی سے آٹومیشن ہونے نہیں دی گئی، کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ یہ نظام چاہتے نہیں ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز میں آٹومیشن کی کوشش ہو رہی تھی لیکن اس کے اندر سے لوگ اسٹے آڈر لے کر رکاوٹ بن جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ جولائی یا اگست تک آٹومیشن پر چلے جائیں گے، اگر آٹومیشن پر چلے گئے اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم آگیا تو بلیک پر ٹیکس نہیں دینے والوں کا سب پتا چل جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا یہ ایمان ہے اسے ہماری ٹیکس وصولی اور اوپر جائے گی، جس سے ہمارے اوپر قرضوں کا بوجھ کم ہوجائے گا اور ہمارے پاس اپنے لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے زیادہ پیسہ ہوگا۔

'پنجاب میں کب تک پولیس اصلاحات ہوں گی؟'

وزیراعظم نے کہا کہ ایک ادارے کو بنانے میں وقت لگتا ہے، نیا ادارہ بہت جلدی کھڑا ہوتا ہے لیکن ایک خراب ادارے کو ٹھیک کرنا سب سے مشکل کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے سابق آئی جی عباس خان نے 1993 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں انہوں نے کہا کہ 25 ہزار لوگوں کو میرٹ کے بغیر بھرتی کیا گیا، زیادہ تر لوگوں کو پیسے لے کر بھرتی کیا گیا اور ان میں سے کئی بڑے کریمنلز تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو جب غلط چیزوں کے لیے استعمال کریں گے تو کیا خیال ہے پولیس ٹھیک چلے گی، جب آپ اس کو مخالفین کے لیے استعمال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس نے کتنے ماورائے قانون پولیس مقابلوں کے نام پر لوگ مارے اور پتا لگوائیں ان کے دور میں کتنے لوگ مروائے گئے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب پولیس سے غلط کام کروائیں گے تو پھر یہ خود بھی غلط کام کریں گے، قبضہ گروپ کیسے بنے، ان کی پشت پر کون تھا، ابھی حکومت پنجاب نے قبضے چھڑائے ہیں، ان میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے الگ قانون ہوگا تو پولیس ٹھیک کام نہیں کرسکتی لیکن ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، پنجاب میں پولیس ٹھیک ہوگی اور لوگ خیبرپختونخوا کی طرح اس کی تعریف کریں گے۔

'لیڈرشپ کی اخلاقیات تباہ ہوں تو معاشرہ تباہ ہوتا ہے'

وزیراعظم نے کہا کہ جب ملک کی لیڈرشپ اخلاقیات کو تباہ کرتی ہے تو وہ سارے معاشرے کو نیچے لے جاتی ہے، جنگیں ہارنے سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں، معاشی بحران سے بھی قومیں تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقیات ختم ہوں تو معاشرہ بگڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں کے اندر 7، 8 اور 9 ویں کلاس میں رول ماڈلز کا کریکٹر بتائیں گے، جب ہم سمجھ جائیں گے تو ہم باقی ادارے، معیشت، ہمارا سب سے بڑا اثاثہ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی استعمال کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں دشمن بھی کہتا تھا کہ وہ صادق اور امین ہیں۔

'فوج اداروں کو کمزور کرکے حکومت میں آتی ہے'

عمران خان نے کہا کہ جب فوج حکومت کرتی ہے تو بدقسمتی سے ان کو ادارے کمزور کرکے حکومت میں آنا پڑتا ہے، عدلیہ اور دیگر اداروں پر کنٹرول کرکے ان کو اپنے نیچے لانا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجیں جس طرح حکومت کرتی ہیں، اس کو جواز دینے کے لیے خود جمہوری بھی کہتے ہیں تو پھر مصنوعی جمہوریت بھی آتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1988 کے بعد ہمارے ہاں جو سیاسی قیادت آئی، انہوں نے بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا اور پیسہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ان کا مقصد یہ ہے کہ جو پیسہ بنا کر باہر لے کر گئے ہیں ان کو بچانا کیسے ہے، پہلے انہوں نے پیسہ بنا کر نقصان پہنچایا اور اب اس پیسے کو بچانے کے لیے نقصان پہنچا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں معیشت کی پروا ہوتی تو آج ان کو مبارک باد دینی چاہیے تھی، یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس طرح اسحٰق ڈار بناتا تھا کہ اس طرح اعداد وشمار بنائے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہماری شرح نمو 0.5 تھی تو اس وقت اعداد وشمار تبدیل کیوں نہیں کیے، اس وقت تو کسی نے نہیں کہا، میں یقین دلاؤں گا کہ لوگوں سے جھوٹ بول کر ہماری تعریف کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری وہ حکومت آئی ہے جس نے بیرونی قرضے واپس کیے ہیں اور ہمیں اب قرضے لینے کی کم سے کم ضرورت پڑ رہی ہے، اس لیے یہ گھبرائے ہوئے ہیں اور پھر سے اکٹھے ہورہے ہیں کہ کسی طرح ان کو گرادیں لیکن یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں