'لاپتا افراد کمیشن نے جبری گمشدگی کے 71 فیصد کیسز نمٹا دیے'

اپ ڈیٹ 07 جون 2021
مئی کے مہینے میں 145نئے کیسز قومی کمیشن کو موصول ہوئے—فائل فوٹو:اےایف پی
مئی کے مہینے میں 145نئے کیسز قومی کمیشن کو موصول ہوئے—فائل فوٹو:اےایف پی

ملک میں جبری طور پر لاپتا افراد کے معاملات حل کرنے کے لیے قائم قومی کمیشن نے موصول ہونے والے 71 فیصد کیسز نمٹا دیے۔

لاپتا افراد کمیشن کے سیکریٹری کی جانب سے مئی2021 کی جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی قیادت میں قومی کمیشن نے 31 مئی2021 تک 5 ہزار 722 جبری گمشدگی کے کیسز نمٹا دیے۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس اپریل تک لاپتا افراد کے لیے قائم کمیشن کو مجموعی طور پر 7 ہزار 873 کیسز موصول ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے تعین میں لاپتا افراد کمیشن ناکام رہا، آئی سی جے

بعدازاں صرف مئی کے مہینے میں 145 نئے کیسز قومی کمیشن کو موصول ہوئے، یوں جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد سے متعلق کیسز کی تعداد مجموعی طور پر 8 ہزار 18 ہوگئی تھی۔

مجموعی کیسز میں سے کمیشن اب تک جبری طور پر گمشدہ 5 ہزار 722 افراد کے کیسز نمٹا چکا ہے جبکہ 2 ہزار 296 افراد بدستور لاپتا ہیں جن کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کمیشن مئی 2021 کے دوران 401 سماعتیں کیں جن میں سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 208 جبکہ کوئٹہ میں 193 سماعتیں ہوئیں۔

بیان میں کہا گیا کہ کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور دیگر اراکین نے نہ صرف لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کا مؤقف سنا بلکہ ان کی جلد از جلد بازیابی کے لیے کوششیں بھی کیں۔

مزید پڑھیں: عدالت کا ایک مرتبہ پھر ’لاپتا‘ افراد کے معاملے پر ٹاسک فورس کو ہر ماہ ملنے کا حکم

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے جسٹس (ر) جاوید اقبال اپنے عہدے کی تنخواہ نہیں لیتے اور نہ ہی سرکاری وسائل استعمال کرتے ہیں۔

لاپتا افراد کا معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے 2011 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس کے دوسرے رکن انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

تاہم یبن الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ (آئی سی جے) نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ یہ کمیشن اپنے قیام کے 9 سالوں میں جبری گمشدگی کرنے والے ایک بھی شخص کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں