اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر بیوروکریٹس کی 'جبری' ریٹائرمنٹ کی اجازت دے دی

اپ ڈیٹ 16 جون 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تینوں درخواستیں مسترد کر دیں — فائل فوٹو / ہائیکورٹ ویب سائٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تینوں درخواستیں مسترد کر دیں — فائل فوٹو / ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سول سرونٹس رولز 2020 کے خلاف مماثل درخواستیں مسترد کرتے ہوئے سینئر بیوروکریٹس کی 'جبری' ریٹائرمنٹ کی اجازت دے دی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے 'نااہل' افسران سے جان چھڑانے کے لیے سول سرونٹس (سروس سے جبری ریٹائرمنٹ) رولز 2020 متعارف کرائے تھے۔

ان رولز کے ذریعے ریٹائرمنٹ بورڈ / کمیٹی کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ وقت سے قبل ان افسران کو ریٹائر کر سکتے ہیں جنہیں اوسط کارکردگی کی جانچ کی رپورٹس (پی ای آرز، پہلے اے سی آرز کہا جاتا تھا) ملی ہوں یا ان کی کارکردگی کے متعلق منفی تبصرے کیے گئے ہوں، سینٹرل سلیکشن بورڈ، ڈپارٹمنٹل سلیکشن بورڈ یا ڈپارٹمنٹل پروموشنل بورڈ کی طرف سے دو مرتبہ تنزلی کی سفارش یا اعلیٰ اختیاراتی سلیکشن بورڈ کی جانب سے دو بار ترقی کی سفارش نہ کی گئی ہو۔

ان رولز سے سینئر بیوروکریٹس میں بے چینی پیدا ہوئی تھی اور انہوں نے اسے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جبکہ کچھ حکم امتناع حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سینئر بیوروکریٹس کی 'جبری' ریٹائرمنٹ کے کیسز کی جانچ پڑتال کا آغاز

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تینوں درخواستیں مسترد کر دیں۔

ایک درخواست گریڈ 21 کے افسر احمد حنیف اورکزئی، جن کی گریڈ 22 میں ترقی دو بار مؤخر کی گئی تھی، کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں بیرسٹر ظفراللہ خان نے ان کی نمائندگی کی۔

دوسری درخواست وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر شیخ ظفر نے ایڈووکیٹ شعیب شاہین کے توسط سے دائر کی تھی جبکہ تیسری درخواست محسن شاہ کی طرف سے دائر کی گئی جس میں ایڈووکیٹ فاروق آدم خان نے ان کی نمائندگی کی۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 25 کے تحت رضاکارانہ واپسی کی پیش کش قبول کرنے کے بعد فریقین کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سروس سے جبری ریٹائرمنٹ نافذ کرکے سول سرونٹس کو سزا دیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ رولز متضاد اور پارلیمنٹ کی کارروائیوں، مثالوں، احتساب آرڈیننس 1999 کی شقوں یہاں تک کہ گورنمنٹ سرونٹ (ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن) رولز 1973 سے بھی متصادم ہیں، کیونکہ رولز کے سیکشن 13 کے ذریعے مجوزہ اتھارٹی کو سول سرونٹ کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بے لگام صوابدیدی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر ممتاز نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نمائندوں کے ہمراہ دلائل میں کہا کہ احمد اورکزئی کی درخواست محض اس خدشے پر مبنی ہے کہ اگر اعلیٰ اختیاراتی سلیکشن بورڈ کو درخواست گزار گریڈ 22 میں ترقی کے لیے موزوں نہ لگے تو انہیں جبری ریٹائرمنٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: سول سروس اصلاحات، افسران کی ترقی کا کڑا معیار مقرر، 'جبری' ریٹائرمنٹ کی راہ ہموار

احمد اورکزئی کے وکیل نے کہا کہ سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 13 میں نااہل امیدواروں کو ہٹانے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور حکومت غیر ضروری طور پر ڈائریکٹری رولز نافذ کر رہی ہے۔

عدالت نے کہا کہ سول سرونٹس ایکٹس 1973 کے سیکشن 13 کی ایک تاریخ ہے جبکہ سیکشن 13 (1)، سول سرونٹ کی ریٹارمنٹ اور اس کے بعد پینشن اور دیگر مراعات کی صورتحال کے باعث ابتدائی طور پر کسی مقررہ اصول کے بغیر نافذ کیا گیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ 'یہ سول سرونٹ کا حق نہیں ہے کہ وہ سروس کے 20 سال مکمل کرنے کے بعد پینشن کی عمر تک پہنچنے کے لیے خدمات انجام دے، بلکہ یہ مجوزہ اتھارٹی یا حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے تاہم اس اختیار کا استعمال سول سرونٹس (سروس سے جبری ریٹائرمنٹ) رولز 2020 کے رول 5 میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق ہونا چاہیے۔


یہ خبر 16 جون 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 16, 2021 11:34am
صوبائی محکموں اور اداروں میں بھی ایسے بہت سے بیٹھے ہیں۔ ان کو بھی فارغ کرنا چاہیے۔ مگر ایسا نہ ہو کہ زیادہ تنخواہ پر دوبارہ رکھ لیا جائے۔