مشرقی ایشیا میں 25 ہزار سال قبل کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا انکشاف

25 جون 2021
لگ بھگ 20ہزار سال کے دورانیے تک انسانوں کا واسطہ کورونا وائرسز سے پڑا —فائل فوٹو: شٹراسٹاک
لگ بھگ 20ہزار سال کے دورانیے تک انسانوں کا واسطہ کورونا وائرسز سے پڑا —فائل فوٹو: شٹراسٹاک

سال 2020 کے آغاز سے لے کر اب تک کورونا وائرس دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو متاثر کرچکا ہے جبکہ لاکھوں افراد کی موت کی وجہ بن چکا ہے اور ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وائرس ہزاروں سال قبل بھی دنیا میں پھیل چکا ہے۔

2002 میں چین میں پھیلنے والی کورونا وائرس کی ایک وبا کو سارس (سیویر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم) کا نام دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 8 ہزار افراد متاثر جبکہ 800 ہلاک ہوئے تھے۔

جس کے 4 سال بعد مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم نامی (ایم ای آر ایس) کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں 2400 افراد متاثر جبکہ 850 سے زائد ہلاک ہوئے تھے اور ان دنوں دنیا کو کو سار-کو وی-2 کی متعدد اقسام کا سامنا ہے جو کووڈ-19 نامی بیماری کی وجہ بن رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کس طرح جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا؟

اس حوالے سے آسٹریلیا اور امریکی سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم نے یہ دریافت کیا ہے کہ لگ بھگ 25 ہزار سال قبل مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس کی ایک وبا پھوٹ پڑی تھی جو 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق اس انکشاف کے شواہد خطے کے موجودہ لوگوں کے جینوم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

تحقیق کے شریک مصنف اور کوئنزلینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں حیاتیاتی ماہر کیریل الیگزینڈرو نے کہا کہ 'اس وائرس نے آبادی میں ایک بڑی تباہی پھیلائی تھی اور اہم جینیاتی داغ بھی چھوڑا'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کسی درخت پر موجود دائروں کی طرح ہمارا جینیٹک کوڈ بھی ہمارے قدیم ماضی کی داستان سناسکتا ہے۔

ہمارے جینز میں ہونی والی میوٹیشنز کا مطلب ہے کچھ لوگ فطری طور پر وائرسز سے جلدی متاثر ہوسکتے ہیں یا ان میں بیماری کی سنگین علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا کی وہ 10 اقسام جو عالمی ادارہ صحت کی توجہ کا مرکز ہیں

ڈاکٹر سولیمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی ماضی قدیم میں بھی انسان کورونا وائرسز کا شکار ہوئے تھے یا نہیں اور یہ چیز ہمارے جینوم کے ذریعے سامنے آسکتی ہے۔

لہذا انہوں نے دنیا بھر سے ہزاروں انسانوں کے جینومز کا سروے کیا اور اسے 1000 جینوم پروجیکٹ ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا۔

ویتنام، چین اور جاپان سے تعلق رکھنے والے افراد میں کورونا وائرس سے تعلق رکھنے والی جینیاتی علامات پائی گئیں تاہم یہ علامات دنیا کے دیگر حصوں کے لوگوں کے جینز میں ظاہر نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر سولیمی نے کہا کہ یہ علامات ظاہر ہونے کے بعد ہم نے یہ جاننے کے لیے مختلف ٹولز استعمال کیے کہ اس خطے کے لوگوں میں یہ جینیاتی تبدیلیاں کتنا عرصہ پرانی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ تبدیلیاں لگ بھگ 25 ہزار سال قبل رونما ہونا شروع ہوئیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ متعدی ہے، تحقیق

محقیق کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وائرس نے 5 ہزار سال قبل جینومز پر ارتقائی دباؤ ڈالنا چھوڑدیا تھا جس کا مطلب ہے کہ یہ وبا 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک وائرس یا وائرسز کی سیریز بھی ہوسکتا ہے جنہوں نے ایک ہی مالیکیولر مشینری استعمال کی کیونکہ ایک اور تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ سارس-کووی-2 کی وائرل فیملی تقریبا 23 ہزار سال پہلے سامنے آئی تھی۔

اس تحقیق سے واضح ہے کہ لگ بھگ 20 ہزار سال کے دورانیے تک انسانوں کا واسطہ کورونا وائرسز سے پڑا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں