ہمارے ’آبائی گاؤں‘ کی طرح عزیز، ایک تہذیب و شرافت اور اپنائیت کے نگر، ہماری دہلی کالونی‘ کی اس ’سقّے والی گلی‘ کا کیا ہی بیان کیا جائے۔

فقط 17 میٹر کی اس پتلی سی گلی کا ’وجۂ تسمیہ‘ یہ بالکل بھی نہیں کہ یہاں سقّے، جنہیں ماشکی یا ’بہشتی‘ بھی کہا جاتا ہے، رہتے تھے بلکہ اس گلی میں تو ہمارے ہوش و حواس میں صرف 2 ہی مکان تھے، ایک دائیں اور ایک بائیں، اس میں سے بھی صرف ایک مکان کا راستہ اس گلی میں تھا، گویا اس گلی میں یہی واحد مکان واقع تھا۔

شاید 1948ء میں کالونی کے قیام کے وقت یہ گلی سقّوں کے لیے ہی نکالی گئی ہو یا پھر شاید اتفاق سے زیادہ تر سقّوں کی گزرگاہ ہوجانے کے سبب اس گلی کا نام ’سقّے والی گلی‘ پڑگیا۔

یہ گلی بالکل گلی نمبر ایک سے باہر کو ’زیرو لائن‘ کو راستہ دیتی ہے اور اندر کی طرف بالکل سیدھا راستہ گلی نمبر 6 تک چلا جاتا ہے، یہاں سے روزانہ سقّے مشکیں بھر کر مکینوں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ وہ سقّے یا ’بہشتی‘ اس سقّے والی گلی کے بیرونی سرے سے بالکل آگے واقع ایک بہت بڑی پانی کی ٹنکی سے اپنی مشکیں بھر بھر کر کُل 7، 8 گلیوں پر مشتمل اس وقت کی کالونی کو پانی دیا کرتے تھے۔

'سقّے والی گلی' کا اندرونی منظر
'سقّے والی گلی' کا اندرونی منظر

چمڑے کی یہ مشک اندر سے کتنی بھری ہوئی اور کتنی خالی ہے، اس پر بھلا کبھی کسی نے کیا شک کیا ہوگا۔ یہ تو اس سُوفتے اور شانت زمانے کے عظیم محنت کش تھے کہ جو موسم کے سرد و گرم سے بے نیاز ہر صبح اپنی کمر پر لادی ہوئی مشکوں کے منہ دابے گھروں کی طرف دوڑ لگاتے تھے اور پھر ایک ٹھیلے پر 5، 6 مشکیں لاد کر لانے لگے تھے۔

پڑھیے: رتن تلاؤ کی مندر والی گلی

وہ گھر کی ڈیوڑھیوں میں بنے ہوئے سیمنٹ کے ان ’کٹوروں‘ میں اپنی مشکوں کے منہ کھول دیا کرتے تھے۔ باقاعدہ لکڑی کے ڈھکنے سے ڈھکے ہوئے یہ ’کٹورے‘ دیوار کے پار بنی ہوئی سیمنٹ کی ٹنکی میں نکلے ہوئے ہوتے تھے، اور اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ گھر کی ٹنکی بھر گئی ہے، لیکن مشک میں کچھ پانی بچ گیا ہے تو یہ گھر میں آواز لگا کر کوئی مشکیزہ، بالٹی یا تسلا وغیرہ لیتے اور اپنی مشک کا باقی پانی اس میں نچوڑ دیا کرتے تھے کہ جب 4، 6 آنے کی مشک کے پیسے پورے لے رہے ہیں تو مشک پوری خالی کیوں نہ کریں۔ کیا زبردست اصول پسند اور ایمانداری تھی!

'زیرو لائن' سے گلی نمبر ایک کی سمت ’سقّے والی گلی' کا ایک رخ
'زیرو لائن' سے گلی نمبر ایک کی سمت ’سقّے والی گلی' کا ایک رخ

ان ماشکیوں کے ذکر پر دفعتاً ہمیں آج کے کچھ ’پیٹرول پمپ‘ یاد آتے ہیں، جس میں ہم مجبوراً پمپ کے میٹر پر بھروسا کرکے اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوا لیتے ہیں اور ’جادو‘ سے 50 لیٹر کی ٹنکی میں 55 لیٹر تک پیٹرول بھر دیا جاتا ہے۔

خیر، ہم واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو ان ’سقّوں‘ کو قصۂ پارینہ بنے ہوئے بھی دسیوں سال بیت چکے تھے۔ اب گھروں میں فراہمئ آب کی لائنیں تھیں، جس میں بجلی کی موٹروں سے پانی کھنیچا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ان لائنوں میں بنا موٹر کے ہی کافی پانی آجاتا تھا اور یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہمارے آبائی گھر میں باورچی خانے اور غسل خانے میں 2 عدد ’سرکاری نل‘ موجود تھے، جس میں شام کے بعد پانی گڑگڑانا شروع ہوتا اور پانی کے زور پر ہوا کے ساتھ گویا ایک ’ساز‘ سا بجنے لگتا۔

یہ علامت ہوتی کہ لائن میں پانی آموجود ہوا ہے، لہٰذا جلدی سے اپنی موٹریں چلا لیجیے اور موٹر چلانے سے پہلے یہ ’سرکاری نل‘ بند کرنا نہ بھولیے، ورنہ پانی کی رفتار میں ہی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ان نلوں میں سے بھی عجیب سی آواز آنے لگے گی۔ پھر پانی بھر لینے کے بعد ایک بار پھر یہ ’سرکاری نل‘ کھول دیے جاتے تاکہ اگلے روز پانی آنے کی خبر ہوسکے۔

تو جناب، ہم نے آنکھ ہی تب کھولی جب ’سقّے‘ ماضی کی ایک یاد بن کر رہ گئے تھے۔ اگرچہ ہمارے گھر کی ڈیوڑھی (گھر کا وہ داخلی حصہ جو بیرونی دروازے سے ملحق ہوتا تھا) میں ’غسل خانے‘ کی سیمنٹ کی ٹنکی سے منسلک سیمنٹ کا مضبوط ’کٹورا‘ بہت پختگی سے جڑا ہوا تھا، جس میں اب سیمنٹ بھر دی گئی تھی۔ اس کے باوجود ’سقّے والی گلی‘ ہماری گاؤں جیسی اس بستی میں داخلے کے لیے ایک متبادل، بغلی اور کسی حد تک ’چور رستہ‘ تھا۔

ہم اپنی گلی نمبر 6 سے 100 میٹر سے زائد طویل اس چوڑے سے راستے کو دیکھیں، جو پہلی لائن سے سیدھا ہماری گلی تک چلا آتا تھا تو نگاہ اسی ’سقّے والی گلی‘ کے دائیں طرف ایستادہ 3 منزلہ عمارت تک جاتی۔ محلے کی 6 گلیوں سے بغل گیر ہونے والے اس چوڑے راستے پر اکثر لڑکے بالے کرکٹ کھیلتے تھے اور کبھی اِدھر سے کوئی ’بَلّے باز‘ سیدھا، زور دار چھکا لگاتا تو گیند کبھی ’سقّے والی گلی‘ کے پاس بھی جاکر پڑتی تھی۔

پڑھیے: کہیں بھی تو 1992ء نہیں!

ہم بھی اکثر اپنے اسکول اسی سقّے والی گلی سے جایا کرتے تھے۔ ’سقّے والی گلی‘ کے بیرونی سرے پر جہاں سقّے پانی بھرا کرتے تھے۔ ہمارے ابّو بتاتے ہیں کہ محلے بھر کی مشکیں بھرنے میں جو تھوڑا تھوڑا پانی زمین پر گرتا رہتا تھا، اسے ضائع ہونے یا کیچڑ سے بچانے کے لیے یہاں باقاعدہ ایک نالی بنائی گئی تھی، جس کے ذریعے یہ سارا پانی آگے ایک چھوٹے سے حوض یا ’پیاؤ‘ کہہ لیجیے، اس میں جمع ہوتا رہتا تھا، اور وہاں محلے کے مشہورِ زمانہ قاری نواب الٰہی کی بھینسیں پانی پیا کرتی تھیں۔

یہ گلی آگے کو جاکر ہماری کالونی کی مرکزی (اندرونی) سڑک میں ضم ہوجاتی تھی، جہاں مسجد، اسکول اور بینک وغیرہ قائم تھے، تبھی اسے ہمارے بزرگوں نے گلی نمبر ایک قرار نہیں دیا ہوگا۔ اور پھر یہ ہم بچوں کی زبان پر ’زیرو لائن‘ کہلائی۔ کہلاتی تو یہ ’بھنگی پاڑے والی گلی‘ بھی تھی، کیونکہ اس گلی کے اندر کی سمت بہت سے صفائی کرنے والے بستے تھے۔ اقلیتی برادری کے بہت سے گھر آج بھی ہیں، ’زیرو لائن‘ کی ایک اور بغلی گلی ہے کہ جہاں آکر یکایک انفرادیت کا سا احساس ہوتا ہے۔

گلی نمبر ایک سے زیرو لائن کی سمت 'سقے والی' گلی کا ایک حالیہ منظر
گلی نمبر ایک سے زیرو لائن کی سمت 'سقے والی' گلی کا ایک حالیہ منظر

اگرچہ گنجانیت کا جِن یہاں بھی بے قابو ہونے لگا ہے اور اب نیچے کے گھروں کی جگہ اونچی عمارتیں آسمان کو نگل رہی ہیں، لیکن اب بھی کچھ کُھلے کُھلے سے پرانی وضع کے گھروں میں یہاں کچھ گزرا ہوا وقت سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ گھروں کے کِواڑ کھلے ہوئے ہیں، چھوٹے بچے گلیوں میں کچھ پرانے شغل میلوں میں مصروف ہیں، کہیں بچے زندگی کی تمام مشکلوں سے بے پرواہ روایتی کھیلوں کی بھاگا دوڑی کر رہے ہیں، کہیں پاس پڑوس کے بزرگ باہر بیٹھے ہوئے ہوا خوری کررہے ہیں تو کہیں کچھ خواتین اپنے معمول کے تبادلۂ خیال میں مشغول۔ ’ہولی‘ آئے یا ’دیوالی‘ ہو، اس کی خیر خبر بھی آپ کو یہاں سے بخوبی مل جاتی ہے۔

پڑھیے: کراچی جو اِک شہر تھا

ساتھ ہی ’زیرو لائن‘ کو ’یونٹ والی گلی‘ بھی کہا گیا۔ کیونکہ سقّے جہاں سے پانی بھرتے تھے، وہاں پانی کی ٹنکی کے ساتھ ساتھ ’ایم کیو ایم‘ کا یونٹ آفس بن گیا تھا، جو ہم نے اپنے ہوش وحواس میں 2002ء سے پہلے شاذ و نادر ہی کھلا ہوا دیکھا۔ اس پر پڑا ہوا تالا زنگ آلود ہوا جاتا تھا اور بارش برسات کے بعد یہ کسی اجڑے ہوئے ویرانے کا سا منظر پیش کرتا۔ 2002ء کے بعد یہ دفتر رُکن صوبائی اسمبلی اور کونسلر وغیرہ کی بیٹھک بھی رہا، پھر 22 اگست 2016ء کے بعد اسے رینجرز کی نگرانی میں مسمار کردیا گیا، اب اس جگہ عقب میں واقع نجی ہسپتال کی دیوار پھوڑ کر وہاں کے لیے ایک متبادل راستہ نکال لیا گیا ہے۔ بقول شاعر

دیوار کیا گری مرے خستہ مکاں کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

ہماری گفتگو بار بار ’سقّے والی گلی‘ کے قرب و جوار میں بھٹک بھٹک رہی ہے، دراصل مشرق سے مغرب کی سمت کو نکلتی ہوئی اس گلی کا محل وقوع ہی کچھ ایسا ہے کہ یہ تفصیل بتائے بنا چارہ نہیں رہتا۔

گلی نمبر 3 کی سمت سے گزرنے والی مرکزی گزرگاہ سے 3 منزلہ عمارت کے بائیں سمت 'سقے والی گلی' کی ایک عکاسی
گلی نمبر 3 کی سمت سے گزرنے والی مرکزی گزرگاہ سے 3 منزلہ عمارت کے بائیں سمت 'سقے والی گلی' کی ایک عکاسی

ہماری زندگی میں اگر 3 پتلی گلیوں کی عقیدت کی حد تک ’سیوا‘ رہی ہے تو نانی اور خالہ کے پرانے گھر والی گلیوں کے بعد بلامبالغہ یہی گلی ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہاں نہ کبھی ہم رہے اور نہ اور کوئی اور شناسا رہا، بلکہ مذکورہ بالا 2 گلیوں کے برعکس یہ گلی ’آر پار‘ تھی۔ اور اس کا یہ ’رہ گزر‘ ہونا ہی اسے ہماری زندگی میں اَن مٹ کرگیا۔ پہلے اگرچہ سقّوں نے اس گلی سے گزر کر نہ جانے کتنی لاکھ مشکیں یہاں کے مکینوں کے گھروں میں ڈالی ہوں گی۔ تو بعد میں یہاں سے یومیہ سیکڑوں لوگ بے دھڑک اپنے محلے میں آتے اور جاتے رہے۔

ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے۔ بھلا امتدادِ زمانہ سے یہاں کیا محفوظ رہ سکا ہے، جو یہ گلی بچ پاتی۔ سو شہر کی اس منفرد نگری پر بھی زمانے کی گردش کے گہرے اثرات پڑے۔ پہلے وہ نیلا آکاش جو کُھلا کُھلا سا تھا، دھرتی سے دیکھیے تو جیسے بہت پاس سے ہم پر سایہ کیے ہوئے تھا، اب 5، 6 کے بعد 8، 8 اور 9، 9 منزلہ عمارتیں جو ایستادہ ہوئیں تو گویا یہ آسمان بھی ہم سے بہت پرے ہوتا چلا گیا۔

پڑھیے: 'چھتہ جنت' والا پُراسرار مکان جو 'اوپر والوں' نے مانگ لیا تھا!

سمے کے بہتے دھارے نے سرپٹ دوڑ لگائی تو کچھ پرانے مکین دنیا سے اُٹھ گئے، تو کچھ ’اچھے گھر‘ کی تلاش میں دیگر علاقوں کے مکین ہوگئے۔ اب بھلا کس کے پاس اتنا ’فالتو‘ وقت ہے کہ ایک بے وجہ اور بہت عام سی دکھائی دینے والی گلی کو کھوجے یا یاد کرے۔

اسی کراچی میں ایک ’پیتل گلی‘ مشہور ہے تو ’بوتل گلی‘ بھی اچھی خاصی معروف ہے۔ دوسری طرف ’کوہِ قاف‘ یا ’یوٹوپیا‘ کی طرح ایک افسانوی اور خیالی سا وجود رکھنے والی جامعہ کراچی کی ’پریم گلی‘ بھی شہرت میں کچھ کم نہیں رہی۔ ان تمام گلیوں کو کوئی شاید اپنی یادوں میں کبھی نہ کبھی دُہرا لے۔

اب بھلا اس چند میٹر کے ٹکڑے کو کوئی کیوں یاد کرنے لگا، جو مکینوں سے لگ بھگ محروم رہنے کے باعث ہمیں ’بے اولاد‘ سی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ کچھ ’ناسٹیلجیا‘ کے شکار لوگ اپنے پرانے گلی اور محلوں کا رخ کر ہی لیتے ہیں لیکن یہ گلی تو لگ بھگ ’بے مکین‘ ہی رہی ہے۔

آج کالونی بھی ہے اور اس کی ’سقّے والی گلی‘ بھی۔ لیکن اب یہاں سے صبح و شام گزرنے والوں کو بھی یہ خبر نہیں کہ ماضی میں کالونی کی ’شہ رگ‘ جیسی اہمیت کی حامل ’سقّے والی گلی‘ کہاں ہے؟ شاید انہیں پہلے تو ’سقّے‘ کے معنی ہی سمجھانے پڑ جائیں، کہ ماضی کا وہ کردار جس کے لیے اردو زبان میں ’ماشکی‘ اور ’بہشتی‘ جیسے الفاظ بھی مروج رہے۔ مگر جب لوگ ’سقّوں‘ کو بھول گئے تو بھلا ’سقّے والی گلی‘ کو کیسے یاد رکھ پاتے۔ ذرا سوچیے چند عشروں قبل جب سقّے یہاں سے پانی کی مشکیں لیے گھروں کا رُخ کرتے تھے تو شاید ہی اور کوئی گلی ہو جو اہمیت اور شہرت کی میدان میں ’سقّے والی گلی‘ کی ہم سری کرسکتی ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں