افغانستان کے مسئلے پر پاکستان، امریکا سمیت چار ملکی نیا اتحاد تشکیل

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2021
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی اس حوالے سے بیان جاری کیا—فوٹو:بشکریہ ساؤتھ ایشین وائسز
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی اس حوالے سے بیان جاری کیا—فوٹو:بشکریہ ساؤتھ ایشین وائسز

افغانستان میں جمود کے شکار امن عمل کو آگے بڑھانے میں تعاون کے لیے امریکا، پاکستان، ازبکستان اور افغانستان پر مشتمل 4 ملکی ایک نیا سفارتی اتحاد تشکیل دے دیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘افغانستان کے امن عمل اور 15 جولائی 2021 کے بعد کے معاملات میں علاقائی تعاون کے لیے امریکا، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے معاون اتحاد کا اعلان کیا گیا ہے’۔

مزید پڑھیں: 'افغانستان کی موجودہ صورتحال کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے'

انہوں نے کہا کہ ‘امریکا، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے نمائندوں نے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے کہ نیا چار رکنی سفارتی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو علاقائی رابطہ کاری میں اضافے پر توجہ دے گا’۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ ‘فریقین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا امن و استحکام علاقائی رابطہ کاری کے لیے اہم ہے اور امن، علاقائی رابطہ کاری اور باہمی طور پر اس کے نفاذ پر اتفاق کیا’۔

بیان میں بتایا گیا کہ ‘بین الاقوامی تجارت کے لیے روشن ہوتے روٹس کے تاریخی مواقع کو تسلیم کرتے ہوئے فریقین تجارت میں توسیع، راہداری کی تعمیر اور کاروباری تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے لیے تعاون کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں’۔

دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘فریقین نے باہمی اتفاق رائے کے ساتھ اس اتحاد کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے آنے والے مہینوں میں ملاقات پر اتفاق کرلیا ہے’۔

دوسری جانب خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی اس حوالے سے بیان جاری کیا گیا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ ‘امریکا، افغانستان، پاکستان اور ازبکستان نے افغانستان میں امن و استحکام میں تعاون کے لیے نیا سفارتی پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں شیڈول افغان امن کانفرنس ملتوی

اتحاد کے حوالے سے امریکی بیان میں مزید کہا گیا کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ‘علاقائی تجارت اور کاروباری تعلقات بڑھانے’ پر کام کیا جائے گا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے واضح کیا کہ ‘امریکی فوج منصوبے کے مطابق وہاں سے انخلا کا عمل بدستور جاری رکھیں گے’۔

خیال رہے کہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیر اعظم عمران خان، ازبک صدر شوکت، افغان صدر اشرف غنی سمیت خطے کے ممالک کے اہم عہدیداران اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔

مذکورہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد پاکستان اور امریکا دونوں ممالک نے اس اہم پیش رفت کا اعلان کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے افغان تنازع میں پاکستان کے منفی کردار کی نشاندہی سے متعلق نقطہ نظر پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے'۔

مزید پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ 15 برسوں میں 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا ہے، تنازع میں اضافہ وہ سب سے آخری چیز ہوگی جو پاکستان چاہے گا۔

عمران خان نے کہا تھا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے، میں کابل گیا، اگر مجھے امن میں دلچسپی نہیں ہوتی تو میں کابل کیوں جاتا؟

ان کا کہنا تھا کہ تمام تر مقصد یہ تھا کہ ہم پاکستان کو امن میں شراکت دار دیکھیں، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا۔

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران خطے کے اہم ملک روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے نمائندہ خصوصی ضمیر کبولوف نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ افغان مسئلے کا حل مذاکرات ہیں۔

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے افغان حکومت کے مؤقف پر بات کرتے ہوئے کبولوف نے کہا کہ یہ منافقت ہے، یہ حقیقت سے آنکھیں موڑنے کی کوشش ہے، جو موجود ہے اور یہ خالی الفاظ ہیں۔

کبولوف نے کہا کہ امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا سے طالبان کو فائدہ ہوا ہے اور اس جاری تنازع کا واحد حل تمام فریقین کو کابل میں مذاکرات کی میز پر ایک ساتھ بیٹھنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار

انہوں نے کہا کہ روس اور دیگر علاقائی طاقتیں افغانستان میں عبوری حکومت کی حامی ہیں۔

قبل ازیں ماسکو میں طالبان کے وفد نے کہا تھا کہ طالبان نے افغانستان میں 85 فیصد علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے، جس کو افغان حکومت نے مسترد کرتے ہوئے روس سے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک کو دوسروں پر حملے کرنے کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں۔

یاد رہے کہ طالبان اور امریکا نے 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکا نے فوجیوں کی واپسی کی یقین دہانی کروائی تھی۔

چار صفحات پر مشتمل معاہدے میں کہا گیا تھا کہ طالبان، افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔

امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔

طالبان نے کہا تھا کہ وہ 10 مارچ 2020 سے بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے، بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔

معاہدے کے تحت امریکا اور طالبان نے اتفاق کیا تھا کہ 'اعتماد سازی' کے لیے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور کہا گیا تھا کہ '10 مارچ تک طالبان کے تقریباً 5 ہزار اور افغان فورسز کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے'۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کرے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، روس

بعد ازاں اپریل میں قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا اور سیکڑوں طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور طالبان نے فورسز کے قیدیوں کو آزاد کیا تاہم اس معاملے پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تنازع بنتا رہا۔

طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تک کشیدگی کو کم کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس وقت تک مذاکرات بھی نہیں ہوں گے۔

طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ 'اشرف غنی کی حکومت ہمارے اعصاب کو آزمانا چاہتی ہے لیکن ہم انہیں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم تھکے نہیں ہیں، ہم اب بھی تازہ دم اور لڑنے کے لیے تیار ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں