نور مقدم قتل کیس: ملزم کے والدین کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2021
منگل کو سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
منگل کو سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیسز میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

ملزم ظاہر جعفر کے گرفتار والدین کو مقامی عدالت کے ڈیوٹی مجسٹریٹ شہزاد خان کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

گرفتار دو ملازمین افتخار اور جمیل کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ ملزمان کو سخت سیکیورٹی حصار میں عدالت لایا گیا۔

پولیس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ لڑکی نے بھاگنے کے لیے روشن دان سے باہر چھلانگ لگائی، ملازمین نے ملزم کو مقتولہ کو کھینچ کر اندر لے جاتے دیکھا، اگر ملازمین پولیس کو بروقت اطلاع دیتے تو قتل روکا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمسائے نے پولیس کو اطلاع دی اور تین منٹ میں پولیس پہنچی۔

پولیس حکام نے عدالت سے ملازمین کے ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملازمین کے موبائل فونز بر آمد کرنے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: شواہد چھپانے، جرم میں اعانت کے الزامات پر ملزم کے والدین گرفتار

وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل ذاکر جعفر قتل کی مذمت کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انصاف ہو اور ملزم کو سخت سزا ہو۔

دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر کے والد نے 'یس' کہہ کر وکیل کے مؤقف کی تائید کی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ میرے مؤکل ضمانت پر ہیں اس کے باوجود پولیس نے حراست میں لیا، پولیس کے خلاف توہین کا کیس اور ایف آئی آر درج کرائیں گے۔

ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا کہنا تھا کہ ملزم کو ہم کبھی بھی سپورٹ نہیں کر رہے، ہمیں پتا لگا کہ گھر میں شور شرابا ہو رہا ہے تو ری ہیلپمنٹ والوں کو کہا دیکھیں ہمارے گھر میں کیا ہو رہا ہے، ہمیں بعد میں پتا لگا کہ یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے۔

وکیل نور مقدم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک عدالتی نظام ہے جس کو فالو نہیں کیا گیا، ہماری عدالت سے استدعا ہے کہ والدین کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، ساتھی وکیل اگر ملزم کو پروٹیکٹ نہیں کر رہے تو ملزم کے والدین کو تفتیش کے لیے حراست میں رہنے دیا جائے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد سناتے ہوئے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور دو ملازمین کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کر دیا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر آج صبح گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا کہ مدعی مقدمہ و مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے تفصیلی بیان کی روشنی میں ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل سمیت متعدد افراد کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے جن کا اس قتل کے ساتھ بطور گواہ یا کسی اور حیثیت میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد اور اس قتل سے جڑے تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام محرکات کے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔

ملزم ظاہر جعفر کی گرفتاری

یاد رہے کہ منگل کے روز اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف منگل کو رات گئے ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعذیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی کے قتل کا مقدمہ مشتبہ شخص کے خلاف درج

گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل مشتبہ ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع کردی تھی۔

کیس کے پراسیکیوٹر ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم سے قتل میں استعمال کیا گیا اسلحہ برآمد ہوا ہے جس میں ایک چاقو، ایک پستول اور ایک آہنی ہتھیار شامل ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ذاکر جعفر کی تحویل سے ان کا اپنا اور نور دونوں کا فون برآمد ہونا باقی ہے اور اسی مقصد کے تحت ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 11 دن کی توسیع کی درخواست کی۔

اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس قاضی جمیل الرحمٰن نے جمعہ کے روز اس وحشیانہ قتل کی تحقیقاتی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی درخواست دیں۔

تحیقیقاتی ٹیم یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ ملزم کا پاکستان، امریکا یا برطانیہ کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہے یا نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں