افغانستان: اسپن بولدک میں ’داخل ہونے کی کوشش‘ پر 4 صحافی گرفتار

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2021
وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس استنکزئی نے کہا کہ حکومت افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس استنکزئی نے کہا کہ حکومت افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کابل: افغان حکام نے جنوبی صوبہ قندھار کے اسپن بولدک میں داخل ہونے والے 4 صحافیوں کو پروپیگنڈا کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسپن بولدک میں سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے جنگجوؤں کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: اسپن بولدک کا کنٹرول واپس لینے کیلئے افغان فورسز کی طالبان سے لڑائی

افغان حکام کے اس اقدام سے میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی ہے اگرچہ حکومت نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ رپورٹرز محفوظ رہیں۔

وزارت داخلہ نے بتایا کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیے جانے والے تمام صحافیوں کو علاقے میں جانے سے روکا تھا لیکن انہوں نے خفیہ ایجنسی کے انتباہ کو نظر انداز کیا۔

انہوں نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے 4 صحافیوں میں سے تین مقامی ریڈیو اور ایک مقامی ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتا ہے۔

وزارت داخلہ کے نائب ترجمان حامد روشن نے کہا کہ این ڈی ایس نے صحافیوں کو علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ سیکیورٹی فورسز ان کی جانیں بچانا چاہتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: 2 ماہ میں پانچواں صحافی قتل

وزارت داخلہ کے ایک اور ترجمان نے بعد میں کہا کہ صحافیوں نے ’پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی تحقیقات کررہی ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس استنکزئی نے کہا کہ حکومت افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتی ہے اور انتہائی پرعزم ہے لیکن دہشت گرد اور دشمن کے ساتھ ملک کے مفادات کے خلاف کوئی بھی پروپیگنڈا جرم ہے۔

مقامی میڈیا کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ملک میں تنازعات کے بارے میں اطلاع دینے کی صلاحیت میں تیزی سے رکاوٹ پیدا ہورہی ہیں اور بین الاقوامی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان چاروں صحافیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ہمیں نیشنل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے قندھار میں 4 صحافیوں کی نظربندی پر تشویش ہے۔

افغان میڈیا رائٹس گروپ این اے آئی کے سربراہ مجیب خلوتگر نے کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے ستمبر تک امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد سے صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

مزیدپڑھیں: افغانستان: قاتلانہ حملے میں خاتون صحافی اور ان کا ڈرائیور ہلاک

انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اسی طرح (گرفتاریاں) کرے گی اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے تو ہم سب سے بڑی کامیابی سے محروم ہوجائیں گے۔

پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے اسپن بولدک کا کنٹرول واپس لینے کے لیے طالبان جنگجوؤں اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

اسپین بولدک ۔ چمن بارڈر کراسنگ جنوبی افغانستان کے لیے معاشی لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔

افغانستان بڑے پیمانے پر اس اہم تجارتی سرحد پر انحصار کرتا ہے اور یہاں سے بادام اور خشک میوہ جات سمیت زرعی اجناس برآمد کرتا ہے جبکہ یہ کراسنگ پاکستان سے تیار شدہ اشیا افغانستان بھیجنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔

طالبان کو سرحد پر قبضہ حاصل کرنے سے معاشی طور پر مستحکم ہوں گے اور انہیں یہاں سے روزانہ گزرنے والی ہزاروں گاڑیوں سے ٹیکس جمع کرنے کا موقع ملے گا۔

گزشتہ دنوں یہ سرحد بند کردی گئی تھی جس کے باعث تقریباً 2 ہزار افغان شہری پاکستان میں پھنس گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں