پاکستان چاہتا ہے کہ افغان مہاجرین کو ان کے وطن میں رکھا جائے، معید یوسف

اپ ڈیٹ 01 اگست 2021
انہوں نے کہا کہ لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کے اندر ایک محفوظ علاقہ بنائے--- فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کے اندر ایک محفوظ علاقہ بنائے--- فائل فوٹو: ڈان نیوز

واشنگٹن: قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ بے گھر افغانیوں کو پاکستان میں دھکیلنے کے بجائے ان کے ملک کے اندر رکھنے کے انتظامات کیے جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی سفارت خانے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ افغانستان میں کشیدگی مزید خونریزی کا باعث نہ بنے۔

مزید پڑھیں: معید یوسف 'اعلیٰ سطح پر بات چیت'، امریکی ہم منصب سے ملاقات کیلئے واشنگٹن روانہ

انہوں نے کہا کہ لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کے اندر ایک محفوظ علاقہ بنائے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اسلام آباد مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’انہیں در بہ در (بے گھر) کیوں کیا گیا؟ ان کے لیے ان کے ملک کے اندر انتظام کریں، پاکستان مزید مہاجرین کو برادشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘۔

معید یوسف نے تحریک انصاف حکومت کی امریکی پالیسی کو ’حقیقت پسندی اور اور غیر معذرت خواہانہ لیکن گھمنڈ پر مبنی رویہ قرار نہیں دیا'۔

انہوں نے زور دیا کہ وہ ’بڑی تصاویر اور سرخیوں‘ پر توجہ نہ دیں۔

خیال رہے کہ معید یوسف 27 جولائی کو انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل فیض حمید کے ساتھ افغانستان اور دوطرفہ تعلقات پر اپنے امریکی ہم منصبوں سے بات چیت کے لیے واشنگٹن پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت، کشمیر کا سودا ہوجانے کا بیانیہ پھیلا رہا ہے، معید یوسف

آئی ایس آئی کے سربراہ وائٹ ہاؤس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ساتھ مذاکرات کے ایک دن بعد واشنگٹن سے روانہ ہوئے تھے جس میں دونوں اطراف کے دیگر سیکیورٹی حکام بھی شریک تھے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ کی امریکی آمد سے متعلق معید یوسف نے کہا کہ ہمیں براہ راست تکنیکی ’ان پٹ‘ کی ضرورت تھی، یہ ایک اعلیٰ سطح کا سیاسی دورہ نہیں تھا اور اس میں تکنیکی مسائل پر توجہ دی گئی‘۔

پاک امریکا تعلقات کی تعمیر نو کا عمل 27 مئی کو جنیوا میں معید یوسف اور ان کے امریکی ہم منصب کے درمیان ملاقات کے ساتھ شروع ہوا۔

معید یوسف نے کہا کہ بات چیت تعلقات کی تعمیر نو کی طرف جاری رہے گی لیکن ’آپ کو وہی احساس نہ ہو جو آپ نے بڑی ملاقاتوں، بڑی تصویروں اور سرخیوں کے ساتھ ماضی میں کیا تھا، یہ مذاکرات اب نتیجہ پر مبنی ہوں گے‘۔

انہوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا کہ پاکستان کا اثر و رسوخ ہے کہ وہ افغان طالبان کو وہ کرنے پر مجبور کرے جو وہ نہیں چاہتے تھے۔

معید یوسف نے کہا کہ ہمارے پاس معمولی، کم لیوریج ہے لیکن اگر اثر و رسوخ ہوتا تو ہم انہیں 1990 کی دہائی میں بامیان بدھ مت کو تباہ کرنے سے روک دیتے، انہیں کم از کم ٹی ٹی پی کو زبردستی نکالنے پر آمادہ کر سکتے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-امریکا تعلقات کے فروغ کیلئے معاشی تعاون پر اتفاق

پاکستان پر امریکی دباؤ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی پریشانیاں غیر ضروری ہیں، اگر تنقید جائز ہے، ہاں، لیکن پاکستان کے پاس فوجی باقی ہیں؟ کیا یہ منطقی ہے؟

انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارتی وزیر خارجہ نے بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پر اثر انداز ہونے کا اعتراف کیا، ’ہم ان مسائل کو اٹھاتے اور ان پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور یہ ایک جاری رہنے والا عمل ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ 'یقینا افغانستان سب سے اہم اور فوری مسئلہ ہے لیکن یہ بات چیت اس بات پر مرکوز ہے کہ کئی مسائل پر کیسے آگے بڑھا جائے، رواں ہفتے کے اجلاس دراصل اس عمل کا جائزہ لینے کے لیے تسلسل ہیں۔

معید یوسف نے تسلیم کیا کہ ’پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آئے ہیں لیکن ہمیں آگے کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں آگے بڑھنے کے حوالے سے بہت مثبت جواب ملا ہے‘۔

تبصرے (1) بند ہیں

Saeed Aug 01, 2021 12:01pm
یہاں لوگ سڑکوں پر خوار ہو رھے ھیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسلہء آبادی ھے، افغان ہماری زمہ داری نہیں۔