پروین رحمٰن کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان کا صحت جرم سے انکار

اپ ڈیٹ 05 اگست 2021
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا — فائل فوٹو: جسٹس فار پروین
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا — فائل فوٹو: جسٹس فار پروین

کراچی میں معروف سماجی شخصیت پروین رحمٰن کے قتل کے 7سال بعد قتل کے الزام میں گرفتار پانچوں ملزمان نے قتل کی منصوبہ بندی یا اسے انجام دینے سے انکار کردیا ہے۔

غریب اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والی پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو اورنگی ٹاؤن میں ان کے دفتر کے قریب گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر کے قتل میں لینڈ مافیا ملوث تھی، چارج شیٹ

پانچ ملزمان عبدالرحیم سواتی، محمد عمران سواتی اور تین شریک ملزمان ایاز شام زئی عرف سواتی، امجد حسین خان اور احمد خان عرف احمد علی عرف پپو کشمیری پر 55سالہ سماجی کارکن کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر سات کے جج کے سامنے آیا جو سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے ان تمام ملزمان کو جیل سے جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت جج کو ملزمان کے بیانات ریکارڈ کرنے تھے اور ملزمان نے انفرادی طور پر اپنے اپنے بیانات قلمبند کرائے۔

ملزمان نے استغاثہ کے ان الزامات کی تردید کی کہ انہوں نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی اس وقت کی ڈائریکٹر محترمہ رحمان کو گولی مار کر قتل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: تفتیشی افسر کو چارج شیٹ جمع کرانے کیلئے ‘آخری موقع’ دے دیا گیا

ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد جج نے استغاثہ اور دفاع کے حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے لیے 9 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔

قبل ازیں عدالت نے سپریم کورٹ کی ہدایت اس مقدمے کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی تشکیل کردہ پانچ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیموں کے سربراہان اور اراکین سمیت وقتا فوقتا پروسیکیوشن کے گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کی تھیں۔

خیال رہے کہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ دفتر سے اپنے گھر کی جانب جارہی تھیں۔

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکیں تھیں۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم

بعدِ ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

یاد رہے کہ 7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اس قتل کے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

رواں سال مارچ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر ضمنی چارج شیٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن نے قتل سے 15 ماہ قبل انٹرویو کے دوران او پی پی کے دفتر کی 'زمین پر قبضہ کرنے والوں اور بھتہ خوروں' کی نشاندہی کردی تھی۔

دوران سماعت ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی زیر نگرانی جے آئی ٹی کے ڈائریکٹر ڈی آئی جی پولیس بابر بخت قریشی نے ضمنی چارج شیٹ دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی اراکین نے ناصرف پہلے سے موجود ریکارڈ کی جانچ کی بلکہ پروین رحمٰن کے قتل میں واٹر اور لینڈ مافیا کے مشتبہ ملوث ہونے کے حوالے سے کیس کی تحقیقات بھی کی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ڈائریکٹر سمیت آٹھ افراد ہلاک

انہوں نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے تازہ تفتیش کے دوران پوچھ گچھ کرنے والے افراد میں سیاستدانوں، صحافیوں اور لینڈ ڈیولپروں کو بھی شامل کیا۔

جے آئی ٹی کے مطابق فری لانس صحافی فہد دیش مکھ نے پروین رحمٰن سے انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے ملزم رحیم سواتی کے ساتھ تنازع کا ذکر کیا تھا جو اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کی اراضی پر کراٹے کا مرکز قائم کرنا چاہتا تھا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹرویو میں پروین رحمٰن نے رحیم سواتی کو 'زمینوں پر قبضہ کرنے والا اور بھتہ خور' قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے صحافی فہد دیش مکھ کا بیان فوجداری طریقہ کار کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت درج کیا۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،سپریم کورٹ برہم

چارج شیٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ گواہوں کے شواہد اور بیانات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پروین رحمٰن کو رحیم سواتی اور اس کے ساتھیوں نے قتل کیا۔

واضح رہے کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او کا قیام 1980ء میں عمل میں آیا تھا، یہ این جی او اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملات پر نظر رکھتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں