کووڈ کے بعد ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، تحقیق

07 اگست 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ کو شکست دینے کے بعد اولین 2 ہفتوں کے دوران ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔

یہ بات سوئیڈن میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

امیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یکم فروری سے 14 ستمبر 2020 کے دوران 86 ہزار سے زیادہ کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک اور فالج کی شرح کا موازنہ 3 لاکھ 48 ہزار سے زیادہ کنٹرول گروپ کے افراد سے کیا گیا

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد اولین 2 ہفتوں میں ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ 3 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔

پہلے سے مختلف عوارض، عمر، جنس اور سماجی و معاشی عناصر سمیت ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑحانے والے تمام عناصر کو مدنظر رکھنے پر بھی یہ خطرہ برقرار رہا۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ دل کی شریانوں سے جڑی پیچیدگیاں کووڈ 19 کی اہم طبی پیچیدگیوں سے منسلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ نتائج سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کتنی ضروری ہے، بالخصوص معمر افراد کے لیے، جن میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھ چکا ہوتا ہے۔

تحقیق کا مقصد ویکسینز کے بعد کی پیچیدگیوں کے خطرے کا تعین کرنا تھا اور معلوم ہوا کہ کووڈ 19 فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے۔

محققین کے مطابق نتائج سے کووڈ 19 سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا تعلق معلوم ہوتا ہے اور اس بیماری کے خلاف ویکسینیشن کی ضرورت کی عکاسی ہوتی ہے۔

تحقیق کے لیے سوئیڈن کے مختلف طبی اداروں میں رپورٹ ہونے والے کووڈ مریضوں کے ڈیٹا کو حاصل کیا گیا جبکہ کنٹرول گروپ میں ایسے افراد تھے جن میں کووڈ کی تشخیص نہیں ہوئی تھی، جبکہ عمر، جنس کے مطابق کورونا کے مریضوں سے مطابقت رکھت تھے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کے بعد کے ہفتوں میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ سے 8 گنا جبکہ خون کی شریان بلاک ہونے سے فالج کا خطرہ 3 سے 6 گنا بڑھ جاتا ہے۔

یہ خطرہ بعد ازاں بتدریج گھٹ جاتا ہے تاہم کم از کم 4 ہفتوں تک اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔

تحقیق میں ایسے کووڈ کے مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن کو ماضی میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا سامنا ہوچکا تھا، تاہم ایسے افراد میں ایک اور ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ پہلے سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں