شیریں مزاری کی پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کیلئے برطانیہ کے 'کمزور عذر' پر تنقید

اپ ڈیٹ 09 اگست 2021
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت نے پاکستان سے کبھی اعداد و شمار طلب نہیں کیے۔—فائل فوٹو: اے پی پی
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت نے پاکستان سے کبھی اعداد و شمار طلب نہیں کیے۔—فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پاکستان کو سفری پابندی کی فہرست ’ریڈ لسٹ‘ میں برقرار رکھنے کے لیے ’کمزور عذر‘ پر برطانیہ کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت نے پاکستان سے کبھی اعداد و شمار طلب نہیں کیے۔

برطانیہ میں بین الاقوامی سفر کے لیے ’ٹریفک لائٹ‘ جیسا نظام رائج ہے جس میں سب سے کم خطرے کے ممالک قرنطینہ فری سفر کے لیے گرین لسٹ، درمیانے خطرے کے حامل ممالک کو زرد (ایمبر) میں رکھا گیا جبکہ (ریڈ لسٹ) سرخ فہرست میں شامل ممالک سے آنے والے مسافروں کو برطانیہ آمد پر ہوٹل میں آئیسولیشن میں 10 روز گزارنے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی پاکستان کو 'ریڈ لسٹ' میں رکھنے پر اپنی ہی حکومت پر تنقید

خیال رہے کہ پاکستان کو اپریل کے اوائل میں ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا جبکہ بھارت کو ڈیلٹا قسم کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے 19 اپریل کو اس فہرست کا حصہ بنایا گیا تھا۔

برطانوی حکومت کی جانب سے جاری حالیہ اپ ڈیٹ میں بھارت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو زرد فہرست میں شامل کردیا گیا تھا جبکہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھا گیا تھا، اس اقدام پر برطانوی قانون سازوں نے بھی تنقید کی تھی۔

ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر انسانی حقوق نے انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ کی ایک رپورٹ شیئر کی جس میں برطانوی حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ویکسینیشن اور ٹیسٹنگ کے اعداد و شمار کی وجہ سے پاکستان کو مذکورہ فہرست میں برقرار رکھا گیا۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’برطانوی حکومت بھارت نواز افراد سے مغلوب ہے اور بھارت کی جانب سے عالمی وبا کووڈ سے نمٹنے میں مسلسل تباہیوں کے عالمی سطح پر رقم ہونے کے باوجود اسے زرد فہرست میں شامل کیا گیا جبکہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا اور پھر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کے دباؤ پر کمزور عذر [کہ] پاکستان نے ڈیٹا شیئر نہیں کیا‘۔

مزید پڑھیں: برطانیہ نے پاکستان کو سفری پابندیوں کی 'ریڈ لسٹ' میں شامل کرلیا

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت نے کبھی اعداد و شمار طلب نہیں کیے اور وہ عوامی سطح پر دستیاب ہیں، ’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے پاس سب سے زیادہ مرکزی اور روزانہ اپڈیٹ کا ڈیٹا بیس سسٹم ہے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے پہلے برطانوی حکومت نے الگ بہانہ بنایا تھا کہ بھارت سے زیادہ پاکستانی مسافروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آرہے ہیں، اب ہدف بدل دیا‘۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ساتھ ایک ورچوئل اجلاس کیا تھا۔

اجلاس کے دوران، اسلام آباد نے برطانوی حکومت کو ڈیٹا فراہم کیا تھا یا نہیں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایک عام دوا کووڈ کی شدت ممکنہ طور پر 70 فیصد تک کم کرسکتی ہے، تحقیق

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اراکین پارلیمنٹ کے مطابق اسد عمر نے انہیں بتایا کہ اعداد و شمار این سی او سی کے فورمز پر سرِ عام دستیاب ہیں جس میں ٹوئٹر اور یوٹیوب شامل ہے اور برطانوی حکام اس تک رسائی کرسکتے ہیں‘۔

رپورٹ میں برطانوی اراکین کے حوالے سے کہا گیا کہ 'ان شیٹس کو دیکھ کر یہ واضح ہے کہ پاکستان کے پاس تازہ ترین ڈیٹا موجود ہے لیکن انہیں لگتا ہے کہ پاکستانی حکام کو برطانیہ کی حکومت کے ساتھ اس کو شیئر کرنا چاہیے اور مؤثر لابنگ کرنی چاہیے تھی'۔

اجلاس کے بعد، وزیر منصوبہ بندی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ گروپ کے ساتھ کووڈ نگرانی اور پاکستان کے کووڈ رسپانس حکمت عملی سے متعلق ڈیٹا گروپ کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا اور برطانیہ کی حکومت کے ساتھ مشاورت کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ریڈ لسٹ کے فیصلے سیاست نہیں بلکہ سائنس پر مبنی ہیں۔

برطانوی اراکین پارلیمان کی تنقید

خیال رہے کہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے پاکستان کو بین الاقوامی سفر کے لیے اپنی 'ریڈ لسٹ' میں رکھنے اور کووڈ 19 کی صورت حال زیادہ سنگین ہونے کے باوجود بھارت کو 'امبر لسٹ' میں ترقی دینے پر اپنی حکومت کے ’گھناؤنے' فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بریڈ فورڈ ویسٹ کی ایم پی ناز شاہ نے کہا تھا کہ وہ اس اقدام پر 'حیران' ہیں اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب برطانیہ نے اپنے قرنطینہ ٹریفک لائٹ سسٹم کے انتظامات میں 'گھناؤنے رویے' کا مظاہرہ کیا ہو۔

انہوں نے سوال کیا تھا کہ پاکستان ابھی تک ریڈ لسٹ میں کیوں ہے جب کہ اس کے سات روز کے انفیکشن کی شرح 14 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 20 فیصد ہونے کے باوجود وہ 'امبر لسٹ' میں ترقی پاچکا ہے جو اس فہرست میں شامل دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'آخری بار جب حکومت نے سائنس کے بجائے سیاسی پسندیدگی پر فیصلہ کیا تھا تو ہماری قوم کی کورونا سے جنگ میں مشکلات بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے ڈیلٹا قسم برطانیہ میں سب سے نمایاں کورونا قسم بن گیا'۔

دوسری جانبب بولٹن ساؤتھ ایسٹ کی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے بھی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان 'کسی قسم کی تشویش نہ ہونے کے باوجود' ریڈ لسٹ میں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے حکومت سے سوال کیا تھا اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت، پاکستان کو ممکنہ معاشی فوائد کے لیے سزا دینا چاہتی ہے، یہ پاکستان کے ساتھ واضح امتیازی سلوک ہے۔

لیٹن نارتھ کی لیبر ایم پی سارا اوون نے بھی کہا تھا کہ تازہ ترین تبدیلیوں کے پیچھے وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'جب آپ اس طرح کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ٹوری وزرا کو بہت کچھ سمجھانا پڑتا ہے کہ بھارت کیوں امبر فہرست میں جا رہا ہے اور پاکستان اور دیگر ممالک اب بھی ریڈ لسٹ پر ہیں'۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ 'بغیر کسی جانچ پڑتال کے تنہائی میں لیے گئے فیصلے کبھی بھی ان لوگوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے جن کی ہم نمائندگی کرنا چاہتے ہیں، ان فیصلوں کے بڑے صحت (اور) ذاتی نتائج سامنے آتے ہیں'۔

تبصرے (1) بند ہیں

Zahoor Hussain Aug 09, 2021 03:17pm
پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں محترمہ کٹھ پتلیوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی