نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے عدالتی ریمانڈ میں 30 اگست تک توسیع

اپ ڈیٹ 16 اگست 2021
عدالت نے پولیس کی درخواست پر ظاہر ذاکر جعفر کے 2 ملازمین کا ڈی این اے کروانے کے درخواست منظور کرلی۔ — فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے پولیس کی درخواست پر ظاہر ذاکر جعفر کے 2 ملازمین کا ڈی این اے کروانے کے درخواست منظور کرلی۔ — فائل فوٹو: ڈان نیوز

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے نور مقدم قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے جوڈیشل ریمانڈ میں 30 اگست تک توسیع کردی۔

ملزم ظاہر ذاکر جعفر کی روبکار، ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ ثاقب جواد کی عدالت میں پیش کی گئی ملزم کو حوالات میں لایا گیا لیکن عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

علاوہ ازیں پولیس نے ملزمان افتخار اور جمیل کے ڈی این اے کرانے کے لیے درخواست ڈیوٹی جج کو پیش کی تھی جس پر عدالت نے ظاہر ذاکر جعفر کے 2 ملازمین کا ڈی این اے کروانے کے درخواست منظور کرلی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے دونوں ملزمان کے ڈی این اے کرانے کی اجازت دینے پر پولیس نے دونوں ملزمان کو اڈیالہ جیل سے طلب کرلیا۔

ساتھ ہی پولیس نے تھراپی سینٹر کے مالک سمیت 6 گرفتار ملزمان کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ ثاقب جواد کی عدالت میں پیش کیا۔

ملزمان میں تھراپی سینٹر کا مالک طاہر ظہور، ملازمین وامق ریاض، دلیپ کمار، ثمر عباس، عبدالحق اور زخمی امجد محمود شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

زخمی ملازم امجد محمود کو واقعے کے روز ظاہر جعفر نے چھری مار کر زخمی کیا تھا۔

مدعی نے اپنے ضمنی بیان میں تھراپی سینٹر کے مالک سمیت ملازمین کو نامزد کیا تھا تاہم پولیس نے ملزمان کو ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب گرفتار کرلیا تھا۔

سماعت کے دوران جج نے ملزمان کی تعداد کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا ملزمان 5 ہی ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر ساجد چیمہ نے بتایا کہ مجموعی طورپر 6 ملزمان ہیں۔

جس پر جج نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پرچہ ریمانڈ پر صرف 5 نام لکھے ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے ریمارکس دیے کہ پرانا پرچہ ریمانڈ سامنے لائیں اور بعدازاں عدالت نے پرانا پرچہ ریمانڈ دیکھ کر ملزم کا نام نئے پرچہ ریمانڈ میں لکھنے کی ہدایت کی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ثاقب جواد نے کہا کہ پرچہ ریمانڈ میں طاہر ظہور کا نام بھی لکھا جائے، اس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ان کا ضمنی بیان میں بھی نام نہیں۔

مزید پڑھیں: ظاہر جعفر نے نور مقدم کے قتل کا اعتراف کرلیا، پولیس کا دعویٰ

ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ملزمان کی حد تک کوئی دفعہ نہیں ہے اور عدالت سے استدعا کی ملزمان کو مقدمے سے خارج کیا جائے۔

دورانِ سماعت پراسیکیوٹر ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ضمنی بیان 24 جولائی کو لکھا گیا تھا جبکہ ایک ضمنی بیان 8 اگست کو بھی لکھا گیا تھا، جس میں مدعی نے ان ملزمان کو نامزد کیا تھا۔

اس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ آپ ضمنی بیان پڑھیں اس میں طاہر ظہور کا نام ہی نہیں تھا، کل جو ضمنی بیان ہوا وہ بھی دیکھ لیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ کل کے بیان میں طاہر ظہور کا نام نہیں ہے اس پر پراسیکیوٹر ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی آر سے ثابت ہوتا ہے مرکزی ملزم کے والد نے طاہر ظہور کو فون کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: ڈی این اے، فنگر پرنٹس قتل میں ظاہر جعفر کی شمولیت ظاہر کرتے ہیں، پولیس

پراسیکیوٹر کے جواب پر جج نے ریمارکس دیے کہ مطلب یہ ہوا ان ملزمان نے جرم کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔

اس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ اگر ہم جرم چھپاتے تو ہمارا ایک ملزم زخمی کیوں ہوتا اور ملزم طاہر ظہور کی حد تک کوئی دفعہ نہیں۔

ملزمان کے وکیل نے مزید کہا کہ ملزمان کے خلاف دفعہ 201 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے یہ قابل ضمانت ہے ہم مچلکے دینے کو تیار ہیں۔

وکیل نے مزید کہا کہ ملزم طاہر ظہور کی عمر 75 سال ہے دل کے مریض ہیں انہیں کوئی طبی سہولت نہیں دی گئی۔

جس پر جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ مقدمہ میں کیا کیا دفعات ہیں، کون سا ملزم زخمی ہے؟'

اس پر پراسیکیوٹر نے مقدمے کی دفعات پڑھ کر سنائیں اور زخمی ملزم امجد نے کمرہ عدالت میں اپنے زخم بھی دکھائے۔

ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ملزم طاہر ظہور کی حد تک عدالت درخواست ضمانت منظور کرے یا مقدمے سے ان کا نام خارج کردے۔

جس پر عدالت نے ملزم طاہر ظہور کو مقدمے سے خارج کرنے اور ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا۔

بعدازاں عدالت نے تمام ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور ملزمان کو دوبارہ 30 اگست کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

سماعت سے قبل نور مقدم کے والد بھی عدالت پہنچے تھے اور انہوں نے مذکورہ کیس کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو بھی کی تھی۔

نور مقدم کے والد کا کہنا تھا کہ ابھی تک کیس کی کارروائی سے مطمئن ہوں، آلہ قتل سے کسی اور کے فنگر پرنٹس ملنے کا کیا فائدہ جب قاتل موجود ہے۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو ان کی بیٹی گھر میں موجود نہیں تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹی کا موبائل فون نمبر بھی بند پایا جس پر اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ انہیں بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس نے شوکت مقدم کو بتایا تھا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے مقتولہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی تھی جس میں انہیں بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں انہیں پتا چلا کہ ان کی بیٹی کو تیز دھار آلے سے بے دردی سے قتل کیا گیا اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں