ہرات میں طالبان کے قبضے کے بعد افغان لڑکیوں کی اسکولوں میں واپسی

اپ ڈیٹ 20 اگست 2021
اسکول کے دروازے کھلے تو طلبا کوریڈور سے چل کر برآمدے میں جاکر گپیں لگاتی نظر آئیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
اسکول کے دروازے کھلے تو طلبا کوریڈور سے چل کر برآمدے میں جاکر گپیں لگاتی نظر آئیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

سفید اسکارف اور کالا حجاب پہنے لڑکیاں، طالبان کے قبضے کے چند ہی دنوں بعد افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں کلاس رومز میں واپس تعلیم حاصل کرنے پہنچ گئیں۔

اسکول کے دروازے کھلے تو طالبات کو کوریڈور سے چل کر برآمدے میں جاکر گپیں لگاتے دیکھا گیا جو بظاہر گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں پھیلے ہنگاموں سے غافل نظر آئیں۔

ان مناظر کے بارے میں بہت سے لوگوں کو تشویش تھی کہ طالبان اقتدار میں آتے ہی اس پر پابندی لگائیں گے۔

ایک طالبہ روقیہ نے کہا کہ ہم دیگر ممالک کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ طالبان سیکیورٹی کو برقرار رکھیں گے، ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں۔

ایران کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے ہرات طویل عرصے سے زیادہ قدامت پسند مراکز سے آزاد رہا ہے۔

مزید پڑھیں: کابل ایئرپورٹ پر خراب صورتحال کے باوجود پرواز وطن واپس لانے پر پی آئی اے کیپٹن کی تعریف

شاعری اور فنون کے لیے مشہور اس شہر میں عورتیں اور لڑکیاں گلیوں میں زیادہ آزادانہ طور پر چلتی پھرتی نظر آتی تھیں اور اس شہر میں اسکولوں اور کالجز میں ان کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔

تاہم اس شہر کا طویل المدتی مستقبل فی الوقت غیر یقینی ہے۔

- فوٹو: اے ایف پی
  • فوٹو: اے ایف پی

واضح رہے کہ شرعی قوانین کے سخت نفاذ کے تحت، جو طالبان نے 1990 کی دہائی میں افغانستان پر کنٹرول کے دوران نافذ کیے تھے، خواتین اور لڑکیوں کو زیادہ تر تعلیم اور ملازمت سے محروم رکھا گیا تھا۔

خواتین پر عوام میں پورے چہرے کا پردہ لازمی قرار دیا گیا تھا اور عورتیں کسی محرم کے بغیر گھروں سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔

آگے کیا ہوگا؟

کوڑے کی سزا اور پھانسی، بشمول زنا کے مجرمان کے لیے سنگسار کی سزاؤں پر عمل درآمد شہر کے چوکوں اور اسٹیڈیمز میں کیے گئے تھے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کے لیے آگے کیا ہے یہ فی الوقت واضح نہیں ہے۔

عوامی سطح پر طالبان اس بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی چند انتہائی پوزیشن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خطے میں افغانستان پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، شاہ محمود قریشی

ان کے ترجمان نے جنگ میں شامل ہر ایک کے لیے سرکاری معافی کا اعلان کیا ہے۔

دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل میں تنظیم کی پہلی سرکاری پریس کانفرنس کے دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سابقہ باغی 'خواتین کو اسلام کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے پرعزم ہیں'۔

20 سال پہلے کی تحریک اور آج کے طالبان میں فرق کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'اگر سوال نظریے اور عقائد پر مبنی ہے تو کوئی فرق نہیں ہے اور تجربے پر بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے اختلافات ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کے اقدامات ماضی کے اقدامات سے مثبت طور پر مختلف ہوں گے۔

- فوٹو:اے ایف پی
  • فوٹو:اے ایف پی

پھر بھی لوگ محتاط انداز میں زندگی کے معمولات سرانجام دے رہے ہیں، خواتین بڑی تعداد میں کابل کی سڑکوں سے غائب ہیں اور مرد اپنے مغربی کپڑے چھوڑ کر زیادہ تر روایتی افغانی لباس کی خریداری کر رہے ہیں۔

عالمی سطح پر طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے اور ہزاروں افغانی اب بھی ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی سرکاری تعلیمی پالیسی ہے یا طالبان کے اسکولوں کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں۔

تاہم رواں ہفتے برطانیہ کی اسکائی نیوز کو انٹرویو کے دوران، طالبان کے ایک اور ترجمان سہیل شاہین نے اس موضوع پر یقین دہانی کرائی تھی۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے لوگوں کے انخلا میں تیزی

انہوں نے کہا تھا کہ خواتین 'پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک حاصل کر سکتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں ہزاروں اسکول اب بھی کام کر رہے ہیں۔

ہرات میں اسکول کی پرنسپل بصیرا بصیرتخا نے محتاط امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'خدا کی شکر گزار ہیں' کہ وہ اسکول دوبارہ کھولنے میں کامیاب ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پیاری طالبات حجاب کی پابندی کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنی کلاسز میں شرکت کر رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'امتحانات جاری ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں