بھارت: رکن اسمبلی پر ریپ کا الزام لگا کر خود سوزی کرنے والی لڑکی چل بسی

اپ ڈیٹ 25 اگست 2021
لڑکی نے دارالحکومت نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی— فوٹو: اے ایف پی
لڑکی نے دارالحکومت نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی— فوٹو: اے ایف پی

بھارتی ریاست اترپردیش میں رکن اسمبلی پر ریپ کا الزام لگانے کے بعد مبینہ طور پر پولیس اور عدلیہ کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی وجہ سے خود کو آگ لگانے والی لڑکی دم توڑ گئی۔

بھارتی خبر رساں ادارے انڈین ایکسپریس کے مطابق اترپردیش کے ضلع غازی پور کی 24سالہ لڑکی گزشتہ ہفتے 16 اگست کو اپنے 27سالہ دوست کے ہمراہ دارالحکومت نئی دہلی آئی تھی جہاں اس نے سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت میں 9 سالہ بچی کا ریپ کے بعد قتل

لڑکی نے فیس بک لائیو ویڈیو میں کہا تھا کہ انہوں نے بہوجن سماج پارٹی کے رکن اسمبلی اُتل رائے کے خلاف پولیس اسٹیشن میں ریپ کی شکایت کی تھی اور الزام لگایا کہ پولیس کے سینئر افسران اور اترپردیش کے جج ان سے ملے ہوئے ہیں۔

دونوں نے اس کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی جس کے نتیجے میں دونوں ہی بری طرح جل گئے تھے۔

لڑکی کا 85فیصد بدن جل گیا تھا جبکہ اس کے ساتھ لڑکے کا بھی 65 فیصد جسم جھلس گیا تھا اور وہ ہفتہ کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا۔

ان دونوں کو آر ایم ایل ہسپتال میں لایا گیئا تھا جہاں منگل کو لڑکی بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: دلت خاتون کا ریپ کے بعد انتقال، شہریوں کا احتجاج

آر ایم ایل کے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ جس دن ان دونوں لایا گیا تھا ہم نے اسی دن ان کی سرجریز کی تھیں لیکن ان کے زخم بہت زیادہ سنگین نوعیت کے تھے اور دونوں بری طرح جھلس گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے علاج میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

رکن اسمبلی اٹل رائے پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر مارچ 2018 میں لڑکی کا ریپ کیا تھا۔

یکم مئی 2019 کو درج کرائی گئی ایف آئی آر میں متاثرہ لڑکی نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کی اتُل رائے سے ملاقات اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میں حصہ لینے کے بعد ہوئی اور انہوں نے رکن اسمبلی سے مالی مدد طلب کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اتُل رائے نے 7مارچ 2018 کو ان کو اپنے اپارٹمنٹ پر بلایا وار ان کا ریپ کیا جبکہ اس کی فلمبندی کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر اس نے یہ بات کسی کو بتائی تو وہ اس کی ویڈیو وائرل کر دیں گے۔

مزید پڑھیں: بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک خاتون کا ’ریپ‘

22 جون 2019 کو رکن اسمبلی عدالت میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد انہیں جوڈیشل حراست میں بھیج دیا گیا تھا لیکن جیل میں رہتے ہوئے بھی غوثی لوک سبھا کے انتخابات جیتنے میں کامیاب رہے تھے اور اس دوران پریاگ راج کی مقامی عدالت میں مقدمہ زیر التوا رہا۔

گزشتہ سال اتُل رائے کے بھائی پاون کمار نے ریپ کا مقدمہ کرنے والی لڑکی پر دستاویزات میں ہیر پھیر اور جعل سازی کی شکایت درج کرائی تھی جس پر لڑکی کے خلاف دھوکا دہی سمیت دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

لڑکی نے ان الزامات کی تردید کی تھی لیکن 2 اگست کو عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے کیونکہ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ متعدد چھاپوں کے باوجود لڑکی کو گرفتار نہیں کر سکے۔

لڑکی کے والدین نے بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کے ان کی بیٹی کب نئی دہلی آئی اور اس نے انہیں مقدمے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، وہ اس کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے کہا تھا کہ وہ اس سے خود ہی نمٹ لے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ریپ کا شکار لڑکی کو عدالت جاتے ہوئے جلادیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ رکن اسمبلی اور ان کے ساتھی 2019 سے ہراساں کررہے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ہم مقدمے سے دستبردار ہو جائیں لیکن ہم نہیں ہوئے، ان کے پاس کچھ ویڈیوز بھی تھیں جس کی بنیاد پر وہ ہمیں دھمکیاں دے رہے تھے لیکن ہماری بیٹی نے کہا کہ وہ اس ظلم کے خلاف لڑے گی۔

لڑکی کے بھائی نے پولیس پر غلط بیانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہا میری بہن ہمیشہ گھر پر ہوتی تھی لیکن پولیس کبھی بھی تفتیش کے لیے نہیں آئی، میری بہن کبھی بھی فرار نہیں ہوئی تو پھر اس کے ناقابل ضمانت وارنٹ کیوں جاری کیے گئے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ حکومت ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

دہلی پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی تھی اور انہیں دوران تفتیش پتہ چلا تھا کہ لڑکی اترپردیش کے افسران کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے گزشتہ ہفتے نئی دہلی آئی تھی کیونکہ یہ افسران مبینہ طور پر رکن اسمبلی اتُل رائے کی مدد کر رہے تھے۔

ادھر اتر پردیش حکومت نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک دو رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جس کی تحقیقات ڈی آئی جی سطح کے افسران کریں گے۔

'اعلیٰ حکام نے آج ہمیں اس مقام تک پہنچایا'

لڑکا اور لڑکی نے فیس بُک لائیو ویڈیو کے دوران کہا تھا کہ ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں یہ ہمیں پہنچانا چاہتے تھے، وہ ہمیں اس مقام تک پہنچانے کے لیے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سال سے کوششیں کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکام نومبر 2020 سے ہمیں مرنے پر مجبور کررہے تھے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ سب، اترپردیش اور اس ملک کے عوام یہ سنیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: 86 سالہ خاتون کے 'ریپ' نے لوگوں کے دل دہلا دیے

انہوں نے خود کو آگ لگانے سے چند منٹ قبل کہا تھا کہ ہم جو قدم اٹھارہے ہیں وہ ڈراؤنا اور تکلیف دہ ہے، ہم بھی بہت خوفزدہ ہیں لیکن اب یہ خوف بے معنی ہے۔

بھارت میں دسمبر 2012 میں ہوئے بھیانک گینگ ریپ واقعے کے بعد سے بڑے پیمانے پر خواتین کے جنسی استحصال اور ریپ کے خلاف آواز بلند کی گئی اور قانون سازی بھی کی گئی لیکن اس کے باوجود ان جرائم کی شرح میں ہر سال کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔

2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس سال 34ہزار خواتین کا ریپ کیا گیا یعنی ہر 15 منٹ پر ایک عورت کسی کی ہوس کا نشانہ بنی۔

یہ بھارت میں اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ 2018 میں ایک اور لڑکی نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کے ہاتھوں مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بننے کے بعد خود کشی کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی رہنما کلدیپ سینگر کے خلاف ریپ کی شکایت کی تھی لیکن پولیس کی جانب سے کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا اور لڑکی نے پولیس پر رکن اسمبلی کے تحفظ اور دھمکی آمیز رویے کا الزام عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں 50 سالہ خاتون گینگ ریپ کے بعد قتل

لڑکی نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے بااثر سیاستدان کے ساتھ مل کر ان کے والد کو گرفتار کر لیا جو دوران حراست مبینہ طور پر پولیس تشدد سے دم توڑ گئے۔

اس کے بعد انہوں نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی جس پر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔

2019 میں اس مقدمے کو اترپردیش سے باہر منتقل کردیا گیا تھا اور دہلی کی عدالت نے کلدیپ سینگر کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں