طالبان کی معاشی بحران کے درمیان نئی افغان حکومت سامنے لانے کی تیاری

02 ستمبر 2021
طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیب اللہ اخونزادہ  - فائل فوٹو:اے ایف پی
طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیب اللہ اخونزادہ - فائل فوٹو:اے ایف پی

افغانستان میں طالبان، اپنی نئی حکومت سامنے لانے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں کابل پر قبضہ کرنے اور 20 سال کی جنگ کے اختتام کے دو ہفتوں سے زائد عرصے کے بعد معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان عہدیدار احمد اللہ متقی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ کابل میں صدارتی محل میں ایک تقریب کی تیاری کی جا رہی ہے جبکہ نجی نشریاتی ادارے طلوع نے کہا کہ نئی حکومت کے بارے میں اعلان جلد متوقع ہے۔

ایک سینئر طالبان عہدیدار نے گزشتہ ماہ رائٹرز کو بتایا تھا کہ تحریک کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ سے توقع ہے کہ وہ ایک گورننگ کونسل پر حتمی اختیار حاصل کر لیں گے جس کے نیچے ایک صدر ہو گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان اور سرمایہ کاروں کی نظر میں نئی حکومت کی قانونی حیثیت افغانستان کی معیشت کے لیے اہم ہو گی جو طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد ختم ہونے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے رپورٹ: کابل ہوائی اڈے پر افراتفری، دھماکے سے چند لمحے قبل روانگی

طالبان کے سپریم لیڈر کے تین نائب ہیں: تحریک کے مرحوم بانی ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب، طاقتور حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی اور گروپ کے بانی ارکان میں سے ایک ملا عبدالغنی برادر ہیں۔

ایک غیر منتخب لیڈر شپ کونسل کے ذریعے طالبان نے اپنی پہلی حکومت چلائی تھی جس نے 1996 سے لے کر 2001 میں امریکی قیادت میں مغربی افواج کے ہاتھوں بے دخل ہونے تک سخت اسلامی قوانین کو نافذ کیا تھا۔

اس مرتبہ طالبان نے دنیا کے سامنے ایک زیادہ معتدل چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور پرانے دشمنوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

تاہم امریکا، یورپی یونین اور دیگر نے اس طرح کی یقین دہانیوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی حکومت کی باضابطہ پہچان اور اس سے آنے والی معاشی امداد عمل پر منحصر ہے۔

امریکی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ وکٹوریہ نولینڈ نے بدھ کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ 'ہم ان کی باتوں کے بجائے ان کے کام کو دیکھیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انہیں اپنے ماضی کی بنیاد پر بہت کچھ ثابت کرنا ہے، اگر وہ ماضی کے برعکس مختلف طریقے سے افغانستان کو چلا سکتے ہیں تو انہیں بہت کچھ حاصل ہونے والا ہے'۔

یورپی کمیشن کے ایشیا اور بحرالکاہل کے منیجنگ ڈائریکٹر گنار ویگنڈ نے کہا کہ یورپی یونین اس وقت تک اس گروپ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گی جب تک کہ وہ ایک جامع حکومت کی تشکیل، انسانی حقوق کا احترام اور امدادی کارکنوں کے لیے بلا روک ٹوک رسائی سمیت شرائط کو پورا نہیں کریں گے۔

انہوں نے برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کے ارکان سے کہا کہ 'یورپی یونین کے رکن ممالک اور جی 7 میں کوئی شک نہیں، ہمیں طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں طالبان پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے، ہمیں ان فوائد کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی میں فون پر آخری بات کیا ہوئی تھی؟

ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم ہم اس نئی حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدی نہیں کریں گے اور نہ ہی سرکاری تعلقات قائم کرنے میں جلدی کریں گے'۔

معاشی تباہی

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں شدید خشک سالی اور جنگ کی بدحالی نے ہزاروں خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔

افغانستان کو نقدی کی اشد ضرورت ہے اور طالبان کو تقریبا 10 ارب ڈالر کے اثاثوں تک فوری رسائی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے جو زیادہ تر افغان مرکزی بینک کی جانب سے بیرون ملک میں رکھے گئے ہیں۔

طالبان نے بینکوں کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے تاہم رقم نکالنے کی ہفتہ وار حد کو سخت کردیا ہے اورر بینکوں پر لمبی قطاریں بھی دیکھی جارہی ہیں۔

کابل کی رہائشی زیلگئی نے کہا کہ 'اب ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے، قیمتیں ہر روز بڑھ رہی ہیں'۔

مزید پڑھیں: افغانوں سے لاتعلقی، خطے میں عالمی دہشت گردوں کیلئے جگہ ہموار کرسکتی ہے، شاہ محمود قریشی

ریٹنگ ایجنسی فچ گروپ کے ریسرچ ونگ فچ سولوشنز کی ایک رپورٹ میں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال افغانستان کی اصل مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 9.7 فیصد تک کی کمی متوقع ہے جس میں اگلے سال 5.2 فیصد مزید کمی دیکھی جائے گی۔

طالبان کے تعینات کردہ مرکزی بینک کے نئے سربراہ نے بینکوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ یہ تنظیم مکمل طور پر کام کرنے والا مالیاتی نظام چاہتی ہے تاہم انہوں نے اس کے لیے فنڈز کی فراہمی کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی۔

جہاں طالبان کابل اور صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں وہیں وہ مخالف گروہ اور باقی رہ جانے والی افغان فوج کے ساتھ لڑ بھی رہے ہیں جو دارالحکومت کے شمال میں پہاڑوں پر موجود ہیں۔

طالبان کے سینئر رہنما امیر خان متوقی نے صوبہ پنج شیر میں باغیوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 'افغانستان کی اسلامی امارت تمام افغانوں کے لیے گھر ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں