نان فائلر تجارتی، صنعتی اداروں پر اضافی ٹیکس عائد

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2021
اضافی ٹیکس صرف ان اداروں پر لاگو ہوگا جنہوں نے سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل نہیں کیا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
اضافی ٹیکس صرف ان اداروں پر لاگو ہوگا جنہوں نے سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل نہیں کیا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

وفاقی حکومت نے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کی کوشش میں نان فائلر صنعتی اور تجارتی اداروں کو بجلی اور گیس کی فراہمی پر 5 سے 17 فیصد تک اضافی سیلز ٹیکس عائد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انکم یا سیلز ٹیکس رولز پر جو صنعتی اور تجارتی ادارے موجود نہیں ان پر اضافی ٹیکس لگانا پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے بجت میں دی گئی تجاویز میں سے ایک تجویز تھی۔

اس ضمن میں جاری نوٹیفکیشن کے مطابق صنعتی یا تجارتی کنکشن رکھنے والے افراد کے لیے بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی پر قابل ادائیگی ٹیکس اور وفاقی ٹیکس کے علاوہ مجموعی بل کی رقم پر اضافی سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: نان فائلرز کے بجلی اور گیس کنیکشنز منقطع کرنے کیلئے ٹیکس قوانین میں ترمیم کا فیصلہ

اضافی ٹیکس صرف ان اداروں پر لاگو ہوگا جنہوں نے سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر حاصل نہیں کیا یا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے زیر انتظام فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

چنانچہ ماہانہ بنیادوں پر غیر رجسٹرڈ صنعتی اداروں کو سپلائی پر 17 فیصد کی یکساں شرح لاگو کی گئی جو غیر رجسٹرڈ صنعتی کنکشن رکھنے والے افراد کو بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی پر قابل ادائیگی ٹیکس کے علاوہ ہوگی۔

تاہم غیر رجسٹرڈ تجارتی اداروں کے لیے مختلف نرخ نافذ کیے گئے جس کے تحت 10 ہزار ایک روپے سے 20 ہزار تک کے بل پر 7 فیصد جبکہ 10 ہزار روپے تک کی رقم پر 5 فیصد اضافی سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔

اسی طرح اگر بل کی رقم 20 ہزار سے 30 ہزار ہوگی تو ٹیکس کی شرح 10 فیصد، 30 سے 40 ہزار پر 12 فیصد جبکہ 40 سے 50 ہزار تک کے بل پر 15 فیصد اضافی ٹیکس عائد ہوگا۔

مزید پڑھیں: 'رواں برس ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف بآسانی حاصل ہوجائے گا'

علاوہ ازیں تمام غیر رجسٹرڈ تجارتی اداروں کے لیے 50 ہزار ماہانہ سے زائد بل کی رقم پر 17 فیصد اضافی سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

انکوائری سے استثنیٰ

صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حکومت نے منی سروس بیورو (ایم سی بیز)، ایکسچینج کمپنیوں، منی ٹرانسفر آپریٹر مثلاً ویسٹرن یونین، منی گرام اور ریا فنانس وغیرہ کے ذریعے ارسال کردہ 50 لاکھ روپے تک کی رقم پر انکوائری سے چھوٹ دے دی۔

اس وقت یہ سہولت صرف بینکاری ذرائع سے بھیجی گئی رقم پر تھی۔

آرڈیننس نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو اپنا ریکارڈ یا اس کے پاس موجود کوئی معلومات، اس کے اپنے اقدام یا ایف بی آر کی درخواست پر شیئر کرنے کی اجازت دی ہے۔

ایف بی آر اس طرح کی معلومات متعلقہ انکم ٹیکس اتھارٹی کو بھیج سکتا ہے جو معلومات کو انکم ٹیکس کے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سالانہ 12 لاکھ روپے سے کم آمدنی والے افراد کیلئے ٹیکس استثنیٰ کی تجویز

آرڈیننس نے نادرا کو اشاریہ آمدنی اور ٹیکس واجبات کا حساب کرنے کی بھی اجازت دی جس سے ڈیبٹ/کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ادا کیے گئے ہوائی سفر کے اخراجات اور ظاہر شدہ آمدنی اور اثاثوں جیسے اخراجات کے مابین ایک تعلق قائم کرنا ایف بی آر کی جانب سے مزید تحقیقات کے لیے رسک اسکور بن سکتا ہے'۔

نادرا کو ٹیکس دہندگان کے ڈیٹا تک رسائی دے کر ایف بی آر نے سیکشن 198 بھی ختم کردیا جس کے مطابق اگر کوئی فرد کسی شخص کی کسی خاص خفیہ معلومات کو ظاہر کرتا ہے وہ اس جرم پر کم از کم 5 لاکھ روپے جرمانہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کی قید یا دونوں کے ساتھ سزا وار ہوسکتا ہے۔

اس کے نتیجے میں اعلیٰ تحقیقاتی ادارے اب بغیر کسی پابندی کے ٹیکس دہندگان کے پروفائل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹیکس ریٹرن نہ فائل کرنے پر جرمانوں پر بھی نظرِ ثانی کی گئی ہے جو ڈیفالٹ کے ہر روز قابل ادا ٹیکس کا 0.1 فیصد یا ایک ہزار روپے یومیہ ہوگی، زیادہ سے زیادہ جرمانہ قابل ادا ٹیکس کا 200 فیصد ہوگا۔

علاوہ ازیں 75 فیصد یا اس سے زیادہ تنخواہ کی آمدنی ہو تو کم از کم جرمانہ 10 ہزار روپے ہوگا جبکہ دیگر معاملات میں 50 ہزار روپے ہوگا۔

گھر سے کام کرنے والے پیشہ ور افراد پر ٹیکس عائد

وفاقی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے 5 سے 35 فیصد اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا ہے جو ان پیشہ ور افراد سے وصول کیا جائے گا جو فعال ٹیکس لسٹ میں موجود نہیں اور بجلی کے گھریلو کنیکشن رکھتے ہوئے رہائشی مقام سے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔

ان پیشہ ور افراد میں اکاؤنٹنٹس، وکلا، ڈاکٹرز، ڈینٹسٹس، طبی ماہرین، انجینیئرز، آرکیٹیکٹس، ماہر انفارمشین ٹیکنالوجی، ٹیوشن پڑھانے والے، ٹرینر اور دیگر افراد شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کردیے

اس طرح اکٹھا کیا جانے والا ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کے قابل ہوگا تاہم یہ واضح نہیں کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں رہائشی مقام سے کام کرنے والے افراد کی نشاندہی کس طرح کریں گی۔

ایف بی آر گیس اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کو کسی بھی ایسے شخص کو سپلائی روکنے کی ہدایت کرسکتا ہے جو درجہ اول کا ریٹیلر ہو لیکن اس نے اپنے آپ کو سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ یا ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ نظام میں ضم نہ کروایا ہو۔

تاہم رجسٹریشن یا انضمام کے بعد ایف بی آر سیلز ٹیکس عمومی حکم نامے کے ذریعے ان کے گیس یا بجلی کے کنکشن کی بحالی کی ہدایت دے گا۔

آرڈیننس کے ذریعے ان لوگوں پر جرمانے میں وسیع نظر ثانی کی گئی جو ایف بی آر کے ساتھ اپنے کاروبار کو مربوط کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کے تحت پہلے ڈیفالٹ کے لیے کم از کم جرمانہ 5 لاکھ جبکہ تیسرے ڈیفالٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ 30 لاکھ روپے ہے۔

اگر ایسا شخص چوتھے ڈیفالٹ کے لیے جرمانہ عائد کرنے کے 15 دن کے اندر اپنے کاروبار کو مربوط کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے کاروباری احاطے کو اس وقت تک سیل کردیا جائے گا جب تک وہ اپنے کاروبار کو ضم نہیں کر لیتا۔

تبصرے (0) بند ہیں