بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات 12 ہفتوں سے پہلے ختم ہوجاتی ہیں، تحقیق

19 ستمبر 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات زیادہ طویل عرصے تک برقرار نہیں رہتیں۔

یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

مردوخ چلڈرنز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا تسلسل 12 ہفتوں بعد برقرار نہیں رہتا اور چند ایک میں ہی یہ دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچوں میں لانگ کووڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والا تحقیقی کام محدود ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ پہلے سے کسی بیماری جیسے موٹاپے، گردوں کے امراض، دل کی شریانوں سے جڑے امراض اور مدافعتی عارضے کے شکار بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بچوں میں اکثر کووڈ 19 کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات ہی ظاہر نہیں ہوتیں، جس کے باعث ہسپتال میں داخلے کی شرح بھی بہت کم ہے، تو لانگ کووڈ کے خطرات اور اثرات کے بارے میں زیادہ سمجھا نہیں جاسکا۔

محققین نے بتایا کہ ابھی تک ہونے والی تحقیق میں عمر بچوں میں لانگ کووڈ کیسز کی واضح تعریف نہیں ہوئی اور نہ ہی عمر سے متعلق ڈیٹا موجود ہے، بلکہ بچے یا والدین کی جانب سے رپورٹ علامات پر انحصار کیا جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ علامات کو دیگر امراض سے الگ امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے اور اس لیے بھی اس حوالے سے زیادہ تفصیلات جمع نہیں ہوسکیں۔

اس تحقیق میں 19 ہزار سے زیادہ بچوں پر ہونے والی 14 بین الاقوامی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کی جانب سے کووڈ کی طویل المعیاد علامات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔

ان کی جانب سے بیماری کے 4 سے 12 ہفتوں کے دوران جو علامات سب سے زیادہ رپورٹ کی گئیں ان میں سردرد، تھکاوٹ، نیند متاثر ہونا، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور پیٹ درد وغیرہ نمایاں تھے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں کہ بچوں میں لانگ کووڈ کا دورانیہ 12 ہفتوں سے زیادہ ہوتا ہے، یعنی یہ مسئلہ بچوں کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی ویکسینیشن کے لیے پالیسی فیصلے کیے جاسکیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پیڈیا ٹرک افیکشیز ڈیزیز جرنل میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں