اسٹیٹ بینک نے درآمدی گاڑیوں کیلئے قرضوں کے حصول میں سختی کردی

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2021
مرکزی بینک نے صارفین کی مالی اعانت کے لیے احتیاطی ضابطوں پر نظر ثانی کی ہے —فائل فوٹو: رائٹرز
مرکزی بینک نے صارفین کی مالی اعانت کے لیے احتیاطی ضابطوں پر نظر ثانی کی ہے —فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی: بڑھتے ہوئے تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے اسٹیٹ بینک کو خاص طور پر درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے احتیاطی ضوابط میں تبدیلی اور مالی اعانت کی حد اور مدت کو کم کر کے درآمدات کو سست کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک نے صارفین کی مالی اعانت کے لیے احتیاطی ضابطوں پر نظر ثانی کردی ہے۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ یہ ٹارگیٹڈ قدم معیشت میں طلب کے اضافے کو اعتدال میں لانے میں مدد دے گا، جس کی وجہ سے درآمد کی رفتار کم ہو جائے گی اور اس طرح ادائیگیوں کے توازن میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2022ء میں ہونے والی باریک کارروائیوں کے بارے میں جانتے ہیں؟

ملک کو بہت زیادہ درآمدی نمو کی وجہ سے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے ساتھ ادائیگیوں کے توازن کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے، اس سے پہلے درآمدی نمو کو معاشی نمو کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا۔

صرف اگست کے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر ڈیڑھ ارب ڈالر ہو گیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسٹیٹ بینک کے مالی سال 2022 کے لیے جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد رہنے کے تخمینے سے آگے نکل سکتا ہے۔

موجودہ رجحان واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ بہت زیادہ خسارہ ملک کا منتظر ہے۔

اسٹیٹ بینک سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'احتیاطی ضوابط میں ان تبدیلیوں میں درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے قرضوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک ہزار سی سی انجن کیپیسٹی سے زائد کی بنی ہوئی/تیار کردہ گاڑیوں کے قرضوں کے لیے دوسری سہولتوں مثلاً ذاتی قرض اور کریڈٹ کارڈز کے لیے ضوابط سے متعلق تقاضے سخت بنائے گئے ہیں'۔

مزید پڑھیں: نئی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ پر توجہ مرکوز

نئی تبدیلیوں کے مطابق گاڑیوں کے قرضوں کی زیادہ سے زیادہ مدت 7 سال سے کم کر کے 5 سال اور ذاتی قرضے کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سے کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

ترمیم شدہ قواعد میں ڈیٹ برڈن کا زیادہ سے زیادہ تناسب جس کی قرض لینے والے کو اجازت ہوتی ہے اسے 50 فیصد سے کم کر کے 40 فیصد کردیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں کسی ایک فرد کے لیے تمام بینکوں/ترقیاتی مالیاتی اداروں سے گاڑیوں کے قرضوں کی مجموعی حد کسی بھی وقت 30 لاکھ روپے سے زائد نہیں ہوگی اور گاڑی کے قرض کے لیے کم از کم ڈاؤن پیمنٹ 15 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کردی ہے۔

بیان میں اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ کم آمدن سے متوسط آمدن والے طبقے کی قوت خرید محفوظ بنانے کے لیے ایک ہزار سی سی تک کی انجن کیپیسٹی والی ملک میں بنی یا تیار کردہ گاڑیوں پر یہ نئے ضوابط لاگو نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اون یا پریمیم پر گاڑیوں کی فروخت: معیشت کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟

مزید برآں یہ قواعد ملکی ساختہ الیکٹرک گاڑیوں پر بھی لاگو نہیں ہوں گے تاکہ صاف توانائی کے استعمال کو فروغ دیا جاسکے اور ان دو طرح کی گاڑیوں کے لیے قرضوں کے سابقہ ضوابط برقرار رہیں گے۔

بینک نے مزید کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ اکاؤنٹس کھولنے والے سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت کے لیے 'روشن اپنی کار' پروڈکٹ پر بینکوں یا ترقیاتی مالی اداروں کے ضوابط تبدیل نہیں کیے گئے۔

اس ضمن میں پاک ۔ کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ یہ تمام اقدامات درآمد شدہ گاڑیوں کے رجحان اور اس کے لیے آسان قرضوں کو سست کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں، یہ درآمدی اور مقامی لگژری گاڑیوں کی خریداری کو کم کرنے میں معاون ہوں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

N A Saleemi Sep 24, 2021 04:14pm
Govt should Ban them. At least something good. Why the most poor pay (indirect taxes, inflation) for their luxury.