پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات اب تک بے نتیجہ ثابت

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2021
آئی ایم ایف ہفتے کے آخر میں یا آئندہ ہفتے کے اوائل میں ایک بیان جاری کر سکتا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
آئی ایم ایف ہفتے کے آخر میں یا آئندہ ہفتے کے اوائل میں ایک بیان جاری کر سکتا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 6 ارب ڈالر کی توسیعی قرض کی سہولت کی بحالی کے لیے پاکستانی وفد کے آخری رکن سیکریٹری خزانہ یوسف خان بھی معاہدہ کیے بغیر واشنگٹنسے روانہ ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف ہفتے کے آخر میں یا آئندہ ہفتے کے اوائل میں ایک بیان جاری کر سکتا ہے جس میں بتایا جائے گا کہ کس طرح فنڈ کا معاشی اصلاحاتی پروگرام، جس میں قرض بھی شامل ہے، کو بحال کیا جاسکتا ہے۔

تاہم پاکستانی حکام اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مذاکرات اب بھی ٹریک پر ہیں اور آئی ایم ایف کے بیان میں پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔

ایک اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفد بشمول وزیر خزانہ (جو اب مشیر خزانہ ہیں) شوکت ترین، سیکرٹری خزانہ یوسف خان، اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر اور دیگر اعلیٰ حکام 4 اکتوبر کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے واشنگٹن پہنچے تھے۔

مزید پڑھیں: شوکت ترین، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ختم کیے بغیر امریکا سے روانہ

اگرچہ وفد نے دیگر ممالک کے شرکا کے ساتھ دوطرفہ ملاقاتیں بھی کیں تاہم قرض کی سہولت کی بحالی نے آئی ایم ایف کے ساتھ ان کے مذاکرات پر غلبہ حاصل کیا۔

مئی 2019 میں پاکستان نے 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج پر مہینوں تک کے مشکل مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جسے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) کہا جاتا ہے۔

39 ماہ کا بیل آؤٹ پروگرام پاکستان کی معاشی پالیسی اور نمو کے باقاعدہ آئی ایم ایف جائزوں سے مشروط ہے۔

یہ معاہدہ مقامی اور بیرونی عدم توازن کو کم کرنے، ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، شفافیت بڑھانے اور سماجی اخراجات کو مضبوط بنانے پر زور دیتا ہے۔

جنوری 2020 میں حکومت کے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اضافی ٹیکس لگانے پر راضی نہ ہونے کے بعد آئی ایم ایف نے پروگرام روک دیا تھا۔

حالیہ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف بجلی کے نرخ میں 4.95 روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے اور حکومت سے 150 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ میں شوکت ترین نے تسلیم کیا کہ آئی ایم ایف نے بجلی اور گیس کی قیمتوں اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی تھی تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ساختی تبدیلیوں کے بغیر ٹیرف میں اضافہ صرف افراط زر کو بڑھاتا ہے اور ہماری صنعت کو غیر مسابقتی بنا دیتا ہے۔

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا نقطہ نظر بھی دیکھنا ہے اور انہوں نے اس مسئلے پر آئی ایم ایف حکام کے ساتھ ’تکنیکی بات چیت‘ کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے قرض سے متعلق پاکستانی ڈیٹا کی توثیق کی ہے، شوکت ترین

آئی ایم ایف کے مطالبات اس اصل معاہدے پر مبنی ہیں جس پر پاکستان نے اگلے تین سالوں کے لیے ملک کے معاشی اور ساختی اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے 2019 میں دستخط کیے تھے۔

پروگرام میں ٹیکس پالیسی اور انتظامی اصلاحات کے ذریعے عوامی مالیات کو بہتر بنانے اور عوامی قرضوں کو کم کرنے پر زور دیا گیا تاکہ محصولات کی نقل و حرکت کو مضبوط بنایا جا سکے اور ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ مساوی اور شفاف تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

آئی ایم ایف نے توانائی کے شعبے اور سرکاری اداروں میں لاگت کی وصولی کے لیے ٹھوس کوششیں بھی تجویز کیں۔

فنڈ نے استدلال کیا کہ اس سے مالیاتی خسارے کو ختم کرنے یا کم کرنے میں مدد ملے گی جو حکومتی وسائل کو کم کرتا ہے۔

آئی ایم ایف نے شفافیت اور اخراجات کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے پبلک فنانس منیجمنٹ فریم ورک کو جدید بنانے کی بھی تجویز دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں