چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا، بائیڈن

23 اکتوبر 2021
امریکی جو بائیڈن ٹاؤن ہال میں منعقد سی این این کے پروگرام میں شرکا کے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز
امریکی جو بائیڈن ٹاؤن ہال میں منعقد سی این این کے پروگرام میں شرکا کے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز

امریکا نے ایک مرتبہ پھر تائیوان کے حوالے سے چین کو خبردار کیا ہے کہا کہ اگر اس نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حالیہ مہینوں میں چین کی جانب سے تائیوان کے قریب فضائی حملوں میں اضافے کے بعد امریکا اور چین میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور چین نے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو ایک دن وہ بزور طاقت تائیوان پر قبضہ کر لے گا۔

مزید پڑھیں: چینی صدر کا تائیوان میں صورتحال ’سنگین اور پیچیدہ‘ ہونے کا انتباہ

جمعرات کی شام بالٹیمور میں سی این این ٹیلی ویژن فورم پر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو کیا امریکا تائیوان کا دفاع کرے گا تو اس پر امریکی صدر نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس کا وعدہ کیا ہے۔

بائیڈن کے اس بیان کے بعد تائیوان کے حوالے سے امریکا کی مبہم اسٹریٹیجک پالیسی عیاں ہو گئی ہے جہاں ماضی میں امریکا تائیوان کے دفاع میں مدد تو کرتا رہا ہے لیکن جنگ کی صورت میں کبھی بھی ان کی مدد کا وعدہ نہیں کیا۔

وائٹ ہاؤس نے جمعہ کو واضح کیا کہ ہم 1979 کے تائیوان ریلیشنز ایکٹ سے رہنمائی لیتے ہیں جس میں کانگریس نے امریکا سے تائیوان کو ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ انہیں اپنے دفاع کے قابل بنایا جا سکے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ صدر ہماری پالیسی میں کسی تبدیلی کا اعلان نہیں کر رہے تھے اور تائیوان کے حوالے سے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'تائیوان اور چین کے درمیان تنازعات دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے'

ترجمان نے کہا کہ ہم ایکٹ کے تحت تائیوان کے اپنے دفاع کی حمایت کے وعدے پر قائم ہیں اور ہم اسٹیٹس کو میں کسی بھی یکطرفہ تبدیلی کی مخالفت جاری رکھیں گے۔

برسلز میں نیٹو ہیڈ کوارٹر کے دورے کے موقع پر سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے اس حوالے سے مفروضوں پر بات کرنے سے انکار کر دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ امریکا تائیوان کو دفاعی صلاحیتوں سے لیس کرنے کے لیے ان کی مدد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

جہاں اس بیان میں چین کو جارحیت سے باز رہنے کی تنبیہ کی گئی ہے وہیں تائیوان کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے کہ وہ باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان نہ کرے۔

تائیوان نے امریکی صدر کے بیان کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ چین کی جارحیت سے دفاع کے لیے عالمی برادری سے مدد کی درخواست بھی کی ہے۔

تائیوان کے صدارتی دفتر کے ترجمان زاویئر چانگ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی حکومت نے عملی اقدامات کے ذریعے تائیوان کی حمایت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: چین پر تائیوان کو دوسرا ہانگ کانگ بنانے کا الزام

لیکن چین نے خبردار کیا ہے کہ بائیڈن کے اس بیان کے بعد امریکا اور چین کے تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور تائیوان کے معاملے پر محتاط رہنے کی ہدایت کی۔

جمعہ کو وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے ایک باقاعدہ پریس بریفنگ میں کہا کہ چین کے پاس اپنے بنیادی مفادات پر سمجھوتہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور چین اپنی خودمختاری کو درپیش خطرات کا بھرپور دفاع کرے گا۔

واضح رہے کہ رواں سال اگست میں جو بائیڈن نے اسی طرح کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے باوجود امریکا اپنے اتحادیوں بالخصوص تائیوان کا دفاع کرے گا۔

یاد رہے کہ واشنگٹن نے 1979 میں بیجنگ کی حمایت میں تائیوان سے سرکاری تعلقات منقطع کردیے تھے لیکن پھر بھی تائیوان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے۔

چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک نے 1949 کی خانہ جنگی کے بعد علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: تائیوان کے معاملے پر 'ناگوار' سلوک کرنے پر امریکی حکام کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، چین

واضح رہے کہ تائیوان اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملک تصور کرتا ہے جس کی اپنی کرنسی، سیاسی اور عدالتی نظام ہے، تاہم اس نے باقاعدہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان نہیں کیا۔

دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے، تاہم 2016 میں صدر سائی اینگوین کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات میں اس وقت مزید خرابی پیدا ہوئی جب انہوں نے جزیرے کو ’ایک چین‘ سمجھنے کے بیجنگ کے مؤقف کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں