’ہمیں اغوا نہیں کیا گیا‘، بلوچستان کے لاپتا ایم پی ایز منظر عام پر آگئے

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2021
گزشتہ دو روز سے لاپتا بلوچستان اسمبلی کے چار ارکان نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں اور آج کوئٹہ واپس جائیں گے — فوٹو: ظہور بلیدی ٹوئٹر
گزشتہ دو روز سے لاپتا بلوچستان اسمبلی کے چار ارکان نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں اور آج کوئٹہ واپس جائیں گے — فوٹو: ظہور بلیدی ٹوئٹر

کوئٹہ: گزشتہ دو روز سے لاپتا بلوچستان اسمبلی کے 4 ارکان نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں ہیں اور آج کوئٹہ واپس جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم پی ایز کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم عبدالقدوس بزنجو گروپ کا حصہ ہیں اور ان کے ساتھ رہیں گے‘۔

ویڈیو میں انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انہیں اغوا کیا گیا تھا۔

اراکین صوبائی اسمبلی اکبر اسکانی، بشریٰ رند، ماہ جبین شیران اور لیالا ترین کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض گروپ سے ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متحدہ اپوزیشن اور حکمراں بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی-عوامی کے اراکین نے ناراض گروپ کے 4 ایم پی ایز کی گمشدگی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ آئین کے تحت ہر شہری کی زندگی اور جائیداد کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے چار ارکان کی گمشدگی کی مذمت کی تھی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی تھی کہ وہ صورتحال کا نوٹس لیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق نہیں ہے، انہیں ایوان کے عدم اعتماد کے بعد استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ 34 ارکان نے ان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان، بی این پی اے کے میر اسد اللہ بلوچ، بی این پی مینگل کے ملک نصیر احمد شاہوانی، بی اے پی کے سردار عبدالرحمٰن کھیتران اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زری نے یہ پریس کانفرنس کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تین خواتین اور ایک مرد ایم پی اے لاپتہ ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے تھے۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے 3 روز قبل بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تھی۔

تحریک عدم اعتماد سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 65 کا ایوان ہے، جام کمال خان ہمارے لیے قابل احترام شخصیت ہیں، یہ ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے حالانکہ ہمارے اراکین اسمبلی ’لاپتا افراد‘ میں آگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میرے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی، جام کمال کا وزیراعظم سے ملاقات کے بعد دعویٰ

انہوں نے کہا کہ کسی کا گلا دبا کر کوئی اقتدار میں نہیں رہ سکتا، یہ بلوچستان کی روایت نہیں ہے کہ کسی کو آپ لاپتا اور اغوا کریں اور ایوان کے تقدس کو پامال کریں، کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ جب ایوان کا ایک شخص سے اعتماد اٹھ گیا ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ جام کمال خان استعفیٰ دے دیں، اقتدار سے چپکے رہنے کا فائدہ نہیں ہے، آج پانچ لاپتا ہیں، کل مزید پانچ لاپتا کر لیں گے، شاید ان کی کرسی بچ جائے لیکن اب یہ ایوان نہیں چلے گا۔

بلوچستان میں بحرانی صورتحال

بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے آثار سب سے پہلے رواں سال جون میں نمایاں ہوئے تھے جب اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک جام کمال خان علیانی کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ احتجاج بحرانی شکل اختیار کر گیا تھا اور بعد میں پولیس نے احتجاج کرنے والے حزب اختلاف کے 17 اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

اس کے بعد اپوزیشن کے 16 ارکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی تاہم گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے سبب تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔

رواں ماہ کے اوائل میں بلوچستان اسمبلی سیکریٹریٹ میں 14 اراکین اسمبلی کے دستخط کی حامل تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی کیونکہ علیانی کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کی مستقل تنقید کا سامنا تھا جن کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ حکومت کے امور چلانے کے لیے ان سے مشاورت نہیں کرتے۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں