افغانستان کو برآمدات کیلئے مقامی کرنسی کے استعمال پر غور

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2021
برآمدات کو آسان بنانے کے لیے حکومت نے پاکستانی روپے میں تازہ پھل، تازہ سبزیاں، گوشت اور مچھلی برآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔  - فائل فوٹو:ڈان
برآمدات کو آسان بنانے کے لیے حکومت نے پاکستانی روپے میں تازہ پھل، تازہ سبزیاں، گوشت اور مچھلی برآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ - فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد: برآمدات میں رکاوٹوں کے خوف سے حکومت نے اصولی طور پر مختلف آپشنز پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں بینکنگ چینلز کے ذریعے قابل تجارت کرنسی کی عدم دستیابی کی وجہ سے زمینی راستوں پر افغانستان کو مقامی کرنسی میں اضافی اشیا کی برآمد کی اجازت دینا شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سہولت کے ایک حصے کے طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے نقد میں بدلنے والی کرنسیوں کی سہولت میں 31 دسمبر 2021 تک کی توسیع کی ہے۔

سہولت کے تحت مجازی ڈیلرز مسافروں کے لیے کسٹم ڈکلیئریشن طلب کیے بغیر برآمدی آمدنی کے طور پر اپنے کاؤنٹرز پر لائی جانے والی نقد میں بدلنے والی کرنسیوں کو قبول کریں گے۔

2 جولائی کو اسٹیٹ بینک نے طریقہ کار پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک سرکلر جاری کیا تھا اور برآمد کنندگان کے لیے لازمی قرار دیا تھا کہ وہ فارم ای جاری کرتے وقت ڈالر کے ثبوت دکھائیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کی درخواست پر افغانستان کیلئے ایرانی ایندھن کی برآمد بحال

برآمد کنندگان سمیت اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اس تبدیلی کی مذمت کی گئی جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک نے 15 اکتوبر 2021 تک اس ضرورت کو منسوخ کر دیا تھا جس میں 31 دسمبر 2021 تک توسیع کی گئی۔

جلد خراب ہونے والی مصنوعات کی برآمدات کو آسان بنانے کے لیے حکومت نے پاکستانی روپے میں تازہ پھل، تازہ سبزیاں، گوشت اور مچھلی برآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔

حکومت نے اب افغانستان کو برآمدات کی فہرست میں مزید دو اشیا، چاول اور ادویات کی مصنوعات شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک سرکاری ذرائع نے ڈان کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’فہرست میں اضافی اشیا کو شامل کرنے کا معاملہ اسٹیٹ بینک کے سامنے اٹھایا گیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ اسٹیٹ بینک کرے گا کیونکہ زرمبادلہ کے قواعد مرکزی بینک کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

مقامی کرنسی یا کرنسی سویپ معاہدوں میں زمینی راستوں سے افغانستان کے ساتھ تجارت کی اجازت دینے کے لیے دو دیگر تجاویز بھی زیر غور ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے سال 2017 میں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی لین دین کو طے کرنے کے لیے ادائیگی کے تصفیے کا طریقہ کار بھی وضع کیا ہے۔

ایک عہدیدار کے مطابق اس کے بعد حکومت کو پاکستان کی ایکسپورٹ پالیسی آرڈر میں ترامیم کرنا ہوں گی۔

اسی طرح اسٹیٹ بینک مقامی کرنسی میں تجارت کی اجازت دینے یا کرنسی کے تبادلے کے معاہدے کی صورت میں فاریکس ایکسچینج مینوئل میں بھی ترمیم کرے گا۔

2002 میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ برآمد کنندگان کو سہولت دی جائے اور افغانستان میں پاکستانی مصنوعات کے لیے مزید مارکیٹ حاصل کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے کنٹرول کے بعد سے افغانستان کیلئے پاکستان کی برآمدات میں تنزلی

اس کے نتیجے میں 2002 کا ایس آر او 31 جاری کیا گیا تاکہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں برآمدات کی اجازت دی جا سکے۔

خیال رہے کہ 03-2002 میں پاکستان سے افغانستان کو برآمدات 38 کروڑ 66 لاکھ ڈالر تھیں۔

اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کی افغانستان کو برآمدات 15-2014 میں بڑھ کر 2 ارب 50 کروڑ ڈالر ہو گئیں۔

برآمدات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افغانستان، امریکا کے بعد پاکستان کے لیے دوسرا بڑا برآمدی مقام بن کر ابھرا ہے۔

تاہم یہ سہولت پھر بیرونی اور اندرونی اطراف کے دباؤ پر بند کر دی گئی تھی۔

اس وقت پاکستانی روپے میں برآمد کے فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا کیونکہ یہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی نگرانی کے لیے عالمی نگران ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ضرورت نہیں تھی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ دورہ افغانستان کے دوران دیگر مسائل کے علاوہ مقامی کرنسی میں تجارت بھی زیر بحث آئی جس کی ایک بڑی وجہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغان درآمدات میں زبردست کمی آنا ہے۔

مزید پڑھیں: 'ملک کی ترقی کے لیے برآمدات میں اضافہ کرنا ضروری ہے'

کسٹمز کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ میں کمی کی وجہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمدات کے لیے بینکوں اور ڈالر کی عدم دستیابی ہے۔

پاکستان نے افغانستان سے تازہ پھلوں، سبزیوں کی درآمد میں سہولت فراہم کی ہے اور اگست سے درآمدات میں دو ہندسوں کا اضافہ ہوا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں