عشرت حسین کا اسلامی بینکنگ صنعت کی کارکردگی پر اظہار مایوسی

04 نومبر 2021
انہوں نے کہا کہ روایتی اور اسلامک بینکاری میں کوئی فرق نہیں رہا — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
انہوں نے کہا کہ روایتی اور اسلامک بینکاری میں کوئی فرق نہیں رہا — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین کا کہنا ہے کہ اسلامک بینک انڈسٹری کی کارکردگی گزشتہ برسوں کے دوران توقعات کے مطابق نہیں رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ میں اسلامک بینکنگ اور فنانس کے موضوع پر منعقدہ پانچویں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ 20 سال قبل بحیثیت گورنر مرکزی بینک اسلامی بینکنگ کے لیے ملک میں پہلی بار لائسنس جاری کرتے ہوئے انہیں جو توقعات تھیں شریعت کے مطابق چلنے والی صنعت اس پر پورا نہیں اتری۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے امید تھی کہ 2021 میں ہمارے پاس کم از کم 25 فیصد مارکیٹ شیئر ہوگا لیکن اس نے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کیے‘۔

مزید پڑھیں: حکومت اسلامی بینکنگ کے فروغ کیلئے کوشاں ہے، نگراں وزیر خزانہ

انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکنگ کے تقریباً 69 فیصد اثاثے کارپوریٹ سیکٹر میں جاتے ہیں تو آپ میں اور روایتی بینکنگ میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی اس ہی طرح کر رہے ہیں۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ڈپازٹس لیے جارہے ہیں لیکن انہیں بڑے شہروں میں خرچ (فنانسنگ کی صورت میں) کیا جاتا ہے، اسلامی بینکنگ کو اپنا ذہن اور رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق سال 21-2020 کے دوران اسلامک بینکنگ انڈسٹری میں سالانہ اثاثوں اور ڈپازٹس میں بالترتیب 32 اور 29.7 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

مجموعی بینکنگ انڈسٹری میں اسلامک بینکنگ کے اثاثوں اور ڈپازٹس کے مارکیٹ شیئر بالترتیب 17 اور18.7 فیصد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے اسلامی اصولوں کے تحت مالیاتی جائزے کی منظوری دے دی

انہوں نے کہا کہ براہ کرم پورٹ فولیو دیکھیں، کیا یہ آپ کے لیے بہت اچھا ہے کہ آپ کے پورٹ فولیو کا صرف 2.6 فیصد ایس ایم ایز کے لیے مختص ہے، جو ملک میں کاروبار کا بڑا حصہ ہیں؟

ڈاکٹر عشرت حسین نے اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ اسلامک بینکنگ فنانسنگ کا صرف 1.2 فیصد زراعت کے لیے مختص ہے، یہ وہ شعبہ ہے جو ملک کی 60 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسلامی بینکنگ کا یہ تناسب روایتی بینکوں سے کم ہے، کیا اسلامی بینکس یہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں جس کے لیے اسلامی بینکاری بنائی گئی ہے؟ مجھے افسوس ہے کیونکہ میرا جواب نہیں ہے۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ اسلامک بینکنگ بھی ان ہی جزویات کے ساتھ سامنے آرہی ہے جو روایتی بینکنگ کی طرز کے ہیں۔

مزید پڑھیں: 2015 کے بعد اسلامک بینکنگ میں سب سے زیادہ نمو ریکارڈ

انہوں نے ’اسلامی اصولوں کے تحت بہت سے آلات‘ کو شریعت کے مطابق بینکاری اور مالیات کے ساتھ ملانے پر زور دیا۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک نے وقف، زکوٰۃ، قرضِ حسنہ اور تکافل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی قرض دینے والے اس تصور کو بینکاری اور فنانس میں شامل کریں تاکہ ہدف بنائے گئے گروپوں کو جدید مصنوعات کی جاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے فنانس کی ملانے کی طاقت کو مدنظر نہیں رکھا، جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ڈال سکیں گے‘۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستانی معاشرہ رسک شیئرنگ کے لیے تیار نہیں ہے جو اسلامی فنانس کا کلیدی جزو ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے احساس ہے کہ مشارقہ (بینک کے ساتھ شراکت داری میں نفع و نقصان شیئر کیا جائے) اور دیگر رسک شیئرنگ مصنوعات کامیاب نہیں ہوں گی، یہ المیہ ہے، ہم نے حج، زکوٰۃ اور عمرہ پر بہت وقت خرچ کیا لیکن ہم ملاوٹ شدہ کھانا اور جعلی ادویات فروخت کرتے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں