ایران میں یومیہ 5 ہزار افغان پناہ گزینوں کی آمد

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2021
انہوں نے کہا کہ جان لیوا سردی سے پہلے افغانستان کے اندر اور ایران جیسے پڑوسی ممالک میں فوری طور پر امداد کی فراہمی ہونی چاہیے—فائل فوٹو: اےایف پی
انہوں نے کہا کہ جان لیوا سردی سے پہلے افغانستان کے اندر اور ایران جیسے پڑوسی ممالک میں فوری طور پر امداد کی فراہمی ہونی چاہیے—فائل فوٹو: اےایف پی

ایک امدادی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ یومیہ 5 ہزار افغان مہاجرین ہمسایہ ملک ایران میں داخل ہو رہے ہیں، جو پہلے سے ہی 36 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل نے ایران کے لیے مزید بین الاقوامی حمایت کا مطالبہ کیا ہے جو سخت امریکی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کررہا ہے۔

مزیدپڑھیں: ‘عالمی برداری افغان پناہ گزین کے مسائل دور کرنے کیلئے تعاون کرے’

کونسل کے سیکریٹری جنرل جان ایجلینڈ نے رواں ہفتے ایران کے دورے کے بعد کہا کہ ایران سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بین الاقوامی برادری کی اتنی کم امداد کے ساتھ اتنے زیادہ افغانوں کی میزبانی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ جان لیوا سردی سے پہلے افغانستان کے اندر اور ایران جیسے پڑوسی ممالک میں فوری طور پر امداد کی فراہمی ہونی چاہیے۔

کونسل کے سیکریٹری جنرل جان ایجلینڈ نے کہا کہ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگست میں امریکی زیر قیادت فوجیوں کے انخلا اور طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد سے کم از کم 3 لاکھ افغان باشندے ایران میں داخل ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کی متوقع آمد: پاکستان کا ’ایرانی ماڈل‘ اپنانے کا امکان

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان خاندانوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں سنی ہیں جو حال ہی میں ایران پہنچے ہیں۔

جان ایجلینڈ کا کہنا تھا کہ ایک پناہ گزین نے بتایا کہ انہیں ایران پہنچنے سے پہلے کئی مرتبہ افغانستان سے بھاگنا پڑا۔

کونسل نے کہا کہ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی جانب سے 30 کروڑ ڈالر کی اپیل کی تھی تاکہ افغانستان سے ایران میں داخل ہونے والے تقریباً 5 لاکھ 15 ہزار افراد کی مدد کی جا سکے۔

کونسل کے سیکریٹری جنرل جان ایجلینڈ نے کہا کہ کہ اب تک اپیل کی مد میں صرف 32 فیصد فنڈ جمع ہوا ہے۔

مزیدپڑھیں: طورخم پر امیگریشن کے متعدد مراحل افغان شہریوں کیلئے دردِ سر بن گئے

انہوں نے کہا کہ اب بین الاقوامی برادری کو افغانستان کے پڑوسیوں کی مدد کے لیے قدم بڑھانا چاہیے اور پناہ گزینوں کی مدد کے لیے ذمہ داری کا اشتراک کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں