ناظم جوکھیو قتل کیس: رکن اسمبلی کے گھر کےقریب کنویں سے مقتول کے کپڑے، موبائل برآمد

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2021
ناظم جوکھیو کے قتل میں نامزد مرکزی ملزم گرفتار ہوچکے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کے قتل میں نامزد مرکزی ملزم گرفتار ہوچکے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کے علاقے ملیر میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس میں بے دردی سے قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے کیس کے پولیس تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتول کا موبائل فون اور کپڑے رکن اسمبلی کی رہائش گاہ کے قریب خشک کنویں سے برآمد کرلیا ہے۔

ناظم جوکھیو کے لواحقین نے کیس کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن اسمبلی مقدمےمیں نامزد

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کی جانب سے ان پر کیس سے دست بردار ہونے کے دباؤ ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں لہٰذا تحفظ فراہم کیا جائے۔

مقتول کے لواحین نے حکام پر زور دیا کہ قتل کو دہشت گردی کے طور پر دیکھا جائے کیونکہ کیس میں نامزد ملزم وڈیرے کا مقصد غریب خاندان میں خوف و ہراس پھیلانا تھا تاکہ کوئی ان کی طاقت کو چیلنج نہ کرسکے۔

ڈان کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس کے سینئر افسر نے بتایا کہ رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے زیرحراست گارڈز نے بتایا تھا کہ انہوں نے مقتول کے موبائل اور کپڑوں کو اویس کے فام ہاؤس میمن گوٹھ ملیر میں جام ہاؤس کے قریب ایک کنویں میں پھینک دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی نشان دہی پر تفتیش کاروں نے موبائل فون کے چند ٹکڑے اور کپڑے کنویں برآمد کرلیے جن کو جلایا گیا تھا۔

پولیس افسر کے مطابق یہ ایک خشک کنواں ہے جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے۔

پولیس نے اس کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ موبائل فون کو تجزیے کے لیے لاہور میں فرانزک لیبارٹری کو بھیج دیا جائے گا اور معلوم ہوگا کہ کراچی کے مضافات میں شکاریوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے بعد مقتول کو مبینہ دھکمی دینے والے کون تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی کے جسمانی ریمانڈ میں 3 روز کی توسیع

سینئر افسر نے بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ ملزمان نے ثبوت مٹانے کے لیے کچرے میں آگ لگایا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اب ثبوت مٹانے کے الزام پر قانون کی متعلقہ شقوں کو ملزمان کے خلاف شامل کرے گی، کال ڈیٹا کا ریکارڈ پہلے ہی حاصل کیا گیا ہے جس میں رکن اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسبملی جام کریم جوکھیو کی رہائش گا میں مقتول کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے۔

پولیس افسر نے کہا کہ درخواست گزار، مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی، ان کا مرکزی گواہ ہے کیونکہ رپورٹ کے مطابق وہ ناظم جوکھیو کے ہمراہ تھے جب وہ مقتول کو 2 اور 3 نومبر کی درمیانی شب کو جام ہاؤس لے گئے تھے اور اس کے ساتھ اہل خانہ نے بھی دیگر گواہی دی ہے۔

لواحقین کا جے آئی ٹی کا مطالبہ

دوسری جانب درخواست گزار افضل نے مطالبہ کیا کہ کیس کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور ڈی آئی جی ایسٹ کی جانب سے کیس کی تفتیش کے لیے بنائی گئی ٹیم کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

سندھ کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کو لکھے گئے خط کی کاپی ڈان ڈاٹ کام کو موصول ہوئی ہے، جس میں افضل نے بتایا کہ وہ ڈی آئی جی ایسٹ کی جانب سے 4 نومبر کو تشکیل دی گئی جے آئی ٹی سے ‘مطمئن نہیں’ اور انوسٹی گیشن افسر مرکزی ملزم رکن صوبائی اسمبلی جام اویس سے باقاعدہ تفتیش نہیں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقتول کے کپڑے، چپل، موبائل فون اور بٹوہ مبینہ طور پر رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کےقبضے میں تھے، جو تاحال برآمد نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ان کا ماننا ہے کہ موجودہ جے آئی ٹی جام اویس کو رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت دے رہی ہے اور وہ تفتیش کاروں کے سامنے قابل عزت مہمان کی طرح پیش ہورہے ہیں۔

افضل نے کہا کہ پولیس نے مقدمے میں کسی غیرملکی کو شامل نہیں کیا اور جام اویس کے غیرملکی مہمانوں کے بارے میں کوئی تفتیش نہیں کی اور نہ رکن قومی اسمبلی جام کریم کو گرفتار کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہے اور نہ ہی غیرملکیوں کے زیر استعمال گاڑی، ناظم جوکھیو کو اغوا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی، اور ملزم سلیم سالار کے زیر استعمال گاڑی جس میں مقتول کے بھائی افضل کو جام ہاؤس لے جایا گیا تھا، حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور پولیس قتل سے متعلق دیگر شواہد جمع کرنے کی بھی کوشش نہیں کر رہی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی سیکشن 7 اور تعزیرات پاکستان کی دیگر متعلقہ دفعات بھی شامل کی جائیں کیونکہ یہ قتل ارادی طور پر کیا گیا جس کا مقصد گاؤں کے کمزو لوگوں میں دہشت پھیلانا تھا تاکہ مستقبل میں کوئی ان ملزمان کی وحشت اور مظالم کو چیلنج نہ کرسکے۔

درخواست گزار نے آئی جی پر زور دیا کہ ایسی جے آئی ٹی تشکیل دے جس میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے نمائندے شامل ہوں۔

افضل نے خط میں مزید کہا کہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور کیس سے دسبردار ہونے اور کمپرومائز کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

انہوں نے گواہوں کے ساتھ ساتھ ان کی اور مقدمے میں ان کے وکیل کی سیکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا۔

پولیس نے الزامات مسترد کردیا

ادھر پولیس کی تفتیشی ٹیم کے ایک سینئر رکن نے ڈان ڈاٹ کام کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سٹی پولیس پہلے ہی مقتول کے اہل خانہ کو پولیس گارڈز فراہم کرچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جے آئی ٹی 8 اراکین پر مشتمل ہے، جس میں ایس ایس پی بھی شامل ہے اور ٹیم نے گھگر پھاٹک کے قریب مقتول کے گھر کا دورہ کیا تھا اور لواحقین کا بیان ریکارڈ کیا تھا اور تفتیشی افسر نے بھی تین سے 4 دفعہ مقتول کے گھر کا دورہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

پولیس افسر نے مقدمے میں غیرملکیوں کی شمولیت کے حوالے سے بتایا کہ یہ تعین نہیں ہوسکا کہ شکار کے وقت غیرملکی موجود تھے تاہم پولیس کو رپورٹ ملی ہے کہ قتل سے پہلے ان علاقے میں غیرملکی مہمانوں کے لیے ایک پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قتل کا واقعہ جام ہاؤس ملیر تک محدود تھا اور درخوست گزاروں نے شروع میں رکن صوبائی اسمبلی سمیت 5 ملزمان کو نامزد کیا تھا اور ان میں سے 4 گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم جام اویس اور دیگر 3 جو مبینہ طور پر تشدد اور قتل میں ملوث تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں