حکومت مشترکہ اجلاس کے ذریعے بلوں کی منظوری کے لیے پرامید

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2021
اس سے قبل بلوں پر حکومت کو دو بار شکست دینے والے اپوزیشن ارکان اس بار کم پرجوش اور مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ - فائل فوٹو:اے پی پی
اس سے قبل بلوں پر حکومت کو دو بار شکست دینے والے اپوزیشن ارکان اس بار کم پرجوش اور مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: اتحادی جماعتوں کی حمایت کی یقین دہانیوں کے بعد حکومت صرف دو ووٹ زیادہ ہونے کے باوجود آج پارلیمنٹ کے متوقع مشترکہ اجلاس میں اپنے تمام بلوں کی منظوری کے لیے پراعتماد دکھائی دیتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے باضابطہ طور پر پارلیمان کا مشترکہ جلاس بدھ کی دوپہر بلایا جس میں انتخابی اصلاحات کے بل سمیت دو درجن سے زائد اہم بلوں پر غور کیا جائے گا جو سینیٹ سے یا تو ختم ہو چکے ہیں یا مسترد ہوچکے ہیں۔

گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں بلوں کی منظوری کے لیے دو تحاریک پر ووٹنگ کے دوران حکومت کو دو بار شکست دینے والے اپوزیشن ارکان اس بار کم پرجوش اور مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔

اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ اتحادیوں کے تحفظات کی وجہ سے بلوں کو مشترکہ اجلاس سے منظور کرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، حکومت نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے ذریعے اپوزیشن کو مشغول کیا تاکہ ووٹ کے لیے اپنے اتحادیوں کو سنبھالنے اور انہیں راضی کرنے کے لیے کچھ وقت مل سکے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی اتحادی جماعتوں کو گردن پر بوٹ رکھ کر مجبور کیا جا رہا ہے، فضل الرحمٰن

خیال رہے کہ حکومت نے اس سے قبل اپنے اتحادیوں، بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی جانب سے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال سے متعلق مجوزہ انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد مشترکہ اجلاس ملتوی کردیا تھا۔

پارلیمنٹ میں پارٹی پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ اگر دونوں ایوانوں کو ایک ساتھ ملایا جائے تو حکومت میں صرف دو ووٹوں کی اکثریت ہے۔

پارٹی پوزیشن کے مطابق 440 رکنی مشترکہ ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 221 کے مقابلے میں 219 بنتی ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں 17 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں وہ اپوزیشن سے 15 ووٹوں سے پیچھے ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری منگل کی شام اسلام آباد پہنچ گئے جب کہ ان کے والد و رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری پہلے ہی دارالحکومت میں موجود ہیں۔

پیپلز پارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ان کے کم از کم تین ارکان مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔

سینئر پارٹی رہنما سید نوید قمر اور سینیٹر سکندر میندھرو علالت کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جب کہ پی پی پی کے ایک اور سینئر ایم این اے نواب یوسف تالپور اس وقت لندن میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کل ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی

اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی شائستہ پرویز ملک کے بھی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا امکان ہے کیونکہ وہ اپنے شوہر پرویز ملک جو کہ پارٹی کے ایم این اے تھے، کی وفات کی وجہ سے عدت گزار رہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزدگی کے وقت 6 آزاد امیدواروں کا ایک گروپ، جنہوں نے اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے کا انتخاب کیا تھا، نے بھی حکومت کے لیے ووٹ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

پی پی پی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ گروپ کے ارکان نے اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ اجلاسوں میں شرکت نہیں کی تھی۔

پیر کو ایک اجلاس میں اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ریاستی ادارے حکومت کے اتحادیوں کو حکومت کے مجوزہ متنازع بلوں کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ’مجبور‘ کر رہے ہیں۔

پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پی ڈی ایم، ریاستی اداروں کی طرف سے اس قسم کی مداخلت کو منظور نہیں کرتی اور اس طرح کے عمل کو آئین کی خلاف ورزی سمجھتی ہے‘۔

پی ڈی ایم رہنماؤں نے ریاستی اداروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہیں اور ’عوام کے صبر کا امتحان نہ لیں‘۔

مزید پڑھیں: حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بدھ کو طلب کرلیا

پی ڈی ایم نے پہلے ہی اشارہ دیا ہے کہ وہ مشترکہ اجلاس سے منظور شدہ متنازع بلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے پہلے ہی دو رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کی جانب سے کیے گئے ایک سرکاری اعلان کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے رہنما انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اختیارات میں کمی اور قومی احتساب آرڈیننس میں ترمیم سے متعلق بلوں کو چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ghulam Murtaza Nov 17, 2021 10:38am
گورنمنٹ کو مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے