ناظم جوکھیو قتل: لواحقین کی کیس انسداد دہشت گردی عدالت بھیجنے کی درخواست

پولیس نے ملزمان کو سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا—فائل/فوٹو: وائٹ اسٹار
پولیس نے ملزمان کو سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا—فائل/فوٹو: وائٹ اسٹار

کراچی کے علاقے ملیر میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے فارم ہاؤس میں قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے بھائی نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو درخواست دی ہے کہ کیس سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھیج دیا جائے۔

درخواست گزار محمد افضل احمد جوکھیو نے اپنے وکیل کے توسط سے جوڈیشل مجسٹریٹ کو درخواست دی کہ معاملہ انسداد دہشت گردی عدالت کے انتظامی جج کو منتقل کریں۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: رکن اسمبلی کے گھر کےقریب کنویں سے مقتول کے کپڑے، موبائل برآمد

درخواست گزار کے وکیل شاہ محمد زمان نے الزام عائد کیا کہ رکن قومی اسمبلی عبدالکریم جوکھیو اور ان کے بھائی رکن صوبائی اسمبلی جام اویس عرف گوہرام خان بیجار جوکھیو نے جوکھیو قبیلے کے سردار کی حیثیت سے اور برادری کے دیگر بااثر افراد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کے بھائی کے قتل کے پیچھے محرکات یہی تھے کہ جوکھیو قبیلے اور برادری کے دیگر افراد کو سبق سکھانا تھا تاکہ ان کے اور ان کے مہمانوں کی غیرقانونی شکار کے خلاف آواز نہ اٹھا ئیں اور اگر آواز بلند کی تو انہیں ناظم الدین جوکھیو کی طرح بے دردی سے قتل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتول کو انتہائی بے دردی سے نشانہ بنانے کا مقصد پورے ضلع ملیر اور جوکھیو قبیلے کے ذہنوں میں خوف، دہشت اور عدم تحفظ پیدا کرنا تھا۔

وکیل نے دلائل دیے کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6 کے ذمرے میں آتا ہے اور عدالت سے درخواست کی کہ مزید سماعت کے لیے معاملہ انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج کو منتقل کریں۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ معاملہ اس عدالت کی حدود میں نہیں آتا۔

تاہم عدالت کی جانب سے تاحال اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی کے جسمانی ریمانڈ میں 3 روز کی توسیع

قبل ازیں درخواست گزار افضل نے مطالبہ کیا تھا کہ کیس کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور ڈی آئی جی ایسٹ کی جانب سے کیس کی تفتیش کے لیے بنائی گئی ٹیم کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

سندھ کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کو لکھے گئے خط کی کاپی ڈان ڈاٹ کام کو موصول ہوئی ہے، جس میں افضل نے بتایا کہ وہ ڈی آئی جی ایسٹ کی جانب سے 4 نومبر کو تشکیل دی گئی جے آئی ٹی سے ‘مطمئن نہیں’ اور انوسٹی گیشن افسر مرکزی ملزم رکن صوبائی اسمبلی جام اویس سے باقاعدہ تفتیش نہیں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مقتول کے کپڑے، چپل، موبائل فون اور بٹوہ مبینہ طور پر رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کےقبضے میں تھے، جو تاحال برآمد نہیں کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ جے آئی ٹی جام اویس کو رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت دے رہی ہے اور وہ تفتیش کاروں کے سامنے قابل عزت مہمان کی طرح پیش ہورہے ہیں۔

درخواست گزار نے آئی جی پر زور دیا تھا کہ ایسی جے آئی تی تشکیل دے جس میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے نمائندے شامل ہوں۔

افضل نے خط میں مزید کہا تھا کہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور کیس سے دستبردار ہونے اور کمپرومائز کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، لہٰذا گواہوں کے ساتھ ساتھ ان کو اور مقدمے میں پیروی کرنے والے ان کے وکیل کو سیکیورٹی دی جائے۔

ملزمان کے ریمانڈ میں توسیع

عدالت نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں نامزد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس خان جوکھیو اور دیگر 5 ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 18 نومبر تک توسیع کردی۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن اسمبلی مقدمےمیں نامزد

پولیس نے پی پی پی رکن صوبائی اسمبلی جام اویس جوکھیو کے ہمراہ عبدالرزاق جوکھیو، امین، حیدر علی، معراج اور جمال وحید سمیت ملزمان کو ملیر جوڈیشل کمپلیکس میں سخت سیکیورٹی میں عدالت کے سامنے پیش کیا۔

انوسٹی گیشن افسر (آئی او) مجتبیٰ باجوہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر سے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی تاکہ پولیس کی حراست میں ان سے تفتیش کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں واقعے میں استعمال ہونے والی لاٹھیاں اور فرانزک ثبوت ملے ہیں لیکن تفتیش تاحال نامکمل ہے۔

آئی او کا کہنا تھا کہ اس لیے مجسٹریٹ سے درخواست کی جاتی ہے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کی جائے تاکہ پولیس تفتیش مکمل کرسکے۔

مجسٹریٹ نے دلائل سننے کے بعد ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 18 نومبر تک توسیع کردی اور آئی او کو اگلی سماعت میں تفتیشی رپورٹ کے ساتھ ملزمان پیش کرنے کی ہدایت کی۔

ناظم جوکھیو کا قتل

کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔

ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔

تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

مقتول نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق

مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔

بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ نازک عضو پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں