کووڈ سے دوسری بار بیمار ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، تحقیق

28 نومبر 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے والے افراد میں ہسپتال میں داخلے یا موت کا امکان پہلی بار کی بیماری کے مقابلے میں 90 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

یہ بات قطر میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اس تحقیق میں قطر میں کووڈ سے متاثر ہونے والے 3 لاکھ 53 ہزار سے زیادہ افراد میں دوبارہ بیماری یا ری انفیکشن کی شرح اور شدت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

قطر میں کورونا کی پہلی لہر مارچ سے جون 2020 تک جاری رہی تھی جس کے دوران 40 فیصد آبادی میں کووڈ 19 کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

بعد ازاں قطر میں جنوری سے مئی 2021 تک زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کی آمد سے قبل مزید 2 لہریں دیکھنے میں آئی۔

ویل کارنیل میڈیسین قطر کے ماہرین نے فروری 2020 سے اپریل 2021 کے دوران کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد کے ریکارڈز کا موازنہ کیا گیا جبکہ ویکسینیشن کرانے والے 87 ہزار 547 افراد کو نکال دیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ باقی بج جانے والے افراد میں 1304 ری انفیکشن کیسز سامنے آئے۔

پہلی بیماری اور دوبارہ کووڈ سے متاثر ہونے کے درمیان اوسطاً 9 ماہ کا وقفہ دیکھنے میں آیا۔

دوسری بار کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے محض 4 افراد کو زیادہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخل کرایا گیا جبکہ کوئی بھی فرد اتنا بیمار نہیں ہوا کہ اسے آئی سی یو میں داخل کرایا جاتا۔

پہلی بار بیمار ہونے پر 28 مریضوں کی حالت نازک قرار دی گئی اور انہیں آئی سی یو میں داخل کرایا گیا تھا۔

ری انفیکشن گروپ میں کوئی ہلاک نہیں ہوا۔

ماہرین نے کہا کہ اتنے افراد میں محض 13 سو ری انفیکشنز کیسز اور ان میں سے بھی محض 4 کیسز میں بیماری کی شدت زیادہ ہونا انتہائی حیران کن ہے۔

یہ تحقیق کچھ حد تک محدود تھی، یہ صرف قطر میں ہوئی اور تحقیقی کام ایلفا اور بیٹا اقسام پر ہوا، ڈیلٹا اس میں شامل نہیں۔

سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا کہ بیماری سے بننے والی قدرتی مدافعت دوبارہ بیماری کا خطرہ کم کرتی ہے۔

مارچ 2021 میں ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے بیشتر افراد کو دوبارہ بیماری سے تحفظ ملتا ہے اور بیماری کے خلاف مدافعت 6 ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے۔

قطر میں ہونے والی تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں