کورونا سے متعلق اخراجات میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2021
رپورٹ میں کہا گیا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے متعلقہ افسران نے کھانے کی جعلی اشیا خریدیں —فائل فوٹو: اے پی پی
رپورٹ میں کہا گیا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے متعلقہ افسران نے کھانے کی جعلی اشیا خریدیں —فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: کووڈ 19 کے سلسلے میں ہوئے اخراجات سے متعلق ایک آڈٹ رپورٹ میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کی جانب سے چینی، گھی اور گندم کے آٹے کی خریداری میں 5 ارب 24 کروڑ روپے تک کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اس میں ایک ارب 40 کروڑ روپے مالیت کے خراب گھی اور خوردنی تیل کی خریداری بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’کووڈ 19 پر وفاقی حکومت کے اخراجات‘ کی رپورٹ وزارت خزانہ نے جاری کی جس میں حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی قیمتوں پر 5 بنیادی اشیائے ضروریہ چینی، گندم، آٹا، تیل اور گھی کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے کی گئی مداخلت میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔

آڈٹ رپورٹ میں مالی خرد برد اور بے ضابطگیوں کے علاوہ اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے متعلقہ افسران نے کھانے کی جعلی اشیا خریدیں جنہیں پنجاب فوڈ اتھارٹی اور دیگر معیاری حکام نے انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کا کورونا فنڈز کے آڈٹ کا مطالبہ

ملک مین کورونا کے پھیلاؤ کے بعد حکومت نے مارچ 2020 میں وزیر اعظم ریلیف پیکج متعارف کروایا تھا جس کے تحت یوٹیلٹی اسٹورز کو 10 ارب روپے جاری کیے گئے تھے تاکہ معاشرے کے غریب طبقے کو رعایتی قیمتوں پر اشیائے خورونوش مل سکے۔

اس سے قبل بھی حکومت نے دسمبر 2019 اور مارچ 2020 کے درمیان خوردہ یوٹیلٹی اسٹورز کے 3 ہزار 989 آؤٹ لیٹس کے ذریعے پانچ ضروری اشیا کی خریداری کے لیے 21 ارب روپے جاری کیے تھے۔

آڈٹ رپورٹ میں گھی اور خوردنی تیل کی خریداری میں ایک ارب 60 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی جو مسابقتی ٹینڈرنگ کے عمل اور مسابقتی نرخ حاصل کیے بغیر کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز کے ریٹیل آؤٹ لیٹس کے شیلفز پر رکھا گیا ایک ارب 40 کروڑ روپے کا گھی اور تیل انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: دو درجن سے زائد سرکاری اداروں کا آڈٹ کرانے سے انکار

رپورٹ میں کہا گیا کہ سکھر ریجن کے علاوہ، جہاں 15 میں سے 11 دکانداروں کی اشیائے خورونوش کو کسی بھی لیبارٹری سے ٹیسٹ کیا گیا تھا، یو ایس سی انتظامیہ نے نہ تو خود خریدی گئی اشیا کے معیار کی جانچ کی اور نہ ہی دکانداروں سے معیار اور حفاظت کے پیرامیٹرز کو یقینی بنایا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر غیر معیاری گھی/تیل کی خرید و فروخت کی ذمہ داری طے کرنے کے لیے معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یو ایس سی لیب ٹیسٹ کی رپورٹس حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا جس کے نتیجے میں غیر معیاری گندم کے آٹے اور زائد ادائیگیوں کے لیے مشکوک ادائیگیاں کی گئیں۔

رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ یو ایس سی کے ریجنل منیجرز پنجاب فوڈ لیبارٹری اور کسی دوسری لیبارٹری سے لیب رپورٹس حاصل کرنے میں ناکام رہے جو کہ حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کا ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے کووڈ 19 سپورٹ فنڈ کے آڈٹ کا جائزہ

دیگر خلاف ورزیوں میں بولی کے عمل کے بغیر جنوری سے اگست 2020 تک 9 کروڑ 52 لاکھ 80 ہزار روپے مالیت کے ایک لاکھ 19 ہزار تھیلے (20 کلو گرام) گندم کے آٹے کی خریداری شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو آٹے کی مقررہ تصریحات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے 32 کروڑ 28 لاکھ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اس کے عہدیداروں نے آٹے میں نمی کے معیار 12 فیصد کو نظر انداز کرتے ہوئے 14 فیصد تک بڑھا دیا جبکہ بھوسی کی شرح کو بھی 2 فیصد سے بڑھا کر 2.5 فیصد کردیا گیا۔

علاوہ ازیں آڈٹ رپورٹ میں چینی کی بے قاعدہ اور غیر منصوبہ بندی سے خریداری کی وجہ سے ایک ارب 37 کروڑ روپے کے نقصان کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی جانب سے دیگر بے ضابطگیوں میں اشیا فراہم کرنے والوں کی جانب سے 2 کروڑ 83 لاکھ 40 ہزار روپے مالیت کے زائد المیعاد اور ناقابل فروخت اسٹاک کو تبدیل نہ کرنا اور اشتہار کے بغیر 4 کروڑ 68 لاکھ 70 ہزار روپے کا مقامی ٹرانسپورٹ کا بے قاعدہ انتظام شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں