کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہونے کا انکشاف

01 دسمبر 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں ہر وقت تھکاوٹ بہت عام مسئلہ ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ماؤنٹ سینائی کے ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں بیماری کو شکست دینے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد تک مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد جن کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے، میں مختلف علامات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

تحقیق میں لانگ کووڈ کے 41 مریضوں کو شامل کیا گی اتھا اور دریافت ہوا کہ ان میں سے لگ بھگ 50 فیصد کو بخار، درد، تھکاوٹ اور ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور یہ سب دائمی تھکاوٹ کے سینڈروم سے منسلک کی جاتی ہیں۔

دائمی تھکاوٹ طبی شعبے میں ایسی بیماری کو کہا جاتا ہے جس میں شدید تھکاوٹ کی وضاحت نہیں ہوتی مگر اس سے مریض کی روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیاں کم از کم 6 ماہ تک متاثر ہوتی ہیں۔

محققین نے بتایا کہ دائمی تھکاوٹ کے ساتھ عموماً کئی مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے جن میں بے چین نیند، خسرہ، ذہنی افعال میں کمی یا ذہنی دھند، سر چکرانا، مسلز میں تکلیف اور گلے کی سوجن قابل ذکر ہیں۔

امریکا میں ایک اندازے کے مطابق 8 سے 25 لاکھ افراد کو اس سینڈروم کا سامنا ہے جن میں سے ای کتہائی میں یہ مسئلہ کسی وائرل بیماری کے بعد نمودار ہوا۔

محققین نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دریافت کرنے حیران رہ گئے کہ ہماری تحقیق میں شامل لگ بھگ 50 فیصد افراد کو دائمی تھکاوٹ کے سینڈروم کا سامنا ہے۔

اس تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 23 سے 69 سال کے درمیان تھی جبکہ ان میں کووڈ کی ابتدائی تشخیص کو 3 سے 15 ماہ ہوچکے تھے اور اسے وجہ سے انہیں لانگ کووڈ کا شکار تصور کیا گیا، یعنی بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی مکتلف طبی مسائل کا سامنا کررہے تھے۔

ہر 10 میں سے 9 مریضوں کو بغیر کسی وجہ کے سانس لینے میں مشکلات کے تسلسل کا سامنا ہوا جبکہ عام جسمانی سرگرمیوں کے دوران دمہ کے مریضوں کی طرح سانس پھول جاتا۔

اگرچہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں یہ نیا مسئلہ نہیں ہوتا مگر ان مریضوں میں اسے بغیر وضاحت کا قرار دیا گیا کیونکہ کسی بھی مریض کے کووڈ سے پھیپھڑوں یا دل کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔

درحقیقت بیشتر میں بیماری کی شدت معمولی تھی اور انہیں ہسپتال میں داخلے یا علاج کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔

ان مریضوں میں علامات کی وجوہات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے محققین نے ورزش اور روزمرہ کے معمولات کے ذریعے ان کے سانس کے نظام کی جانچ پڑتال کی۔

ان افراد سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ تھکاوٹ کے رجحانات کے بارے میں بھی بتائیں جن کا سامنا انہیں 6 ماہ کے دوران ہوا جبکہ جوڑوں کی اکڑن، مسلز میں تکلیف، نیند اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل سمیت دیگر کو رپورٹ کرنے کا بھی کہا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 45 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوا اور زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز میں کووڈ کی شدت معمولی تھی اور انہیں کسی قسم کے جان لیوا خطرے کا سامنا نہیں ہوا۔

محققین نے کہا کہ بنیادی طور پر کووڈ سے متاثر ہر فرد کو لانگ کووڈ کا خطرہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی وہ مسئلے کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے ایک فیصد مریضوں کو بھی طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کووڈ کے کیسز کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ لانگ کووڈ کے خطرے کا سامنا کروڑوں مریضوں کو ہوسکتا ہے۔

درحقیقت انہوں نے کہا کہ لانگ کووڈ کے بیشتر افراد میں علامات کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے جتنی ابتدائی بیماری میں بھی نہیں تھی۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جے اے سی سی ہارٹ فیلیئر میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں